امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کپڑا خریدے اور اس میں عیب نکلے، مثلاً پھٹا ہوا ہو یا اور کچھ عیب بائع کے پاس کا ہو، گواہوں کی گواہی سے، یا بائع کے اقرار سے، اب مشتری نے اس کپڑے میں تصرف کیا، جیسے اس کو کتر بیونت کر ڈالا، جس سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی، پھر اس کو عیب معلوم ہوا تو وہ کپڑا بائع کو پھیر دے، اور کاٹنے کا ضمان مشتری پر نہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1452Q7]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کپڑا خریدا اور اس میں عیب پایا، مثلاً پھٹا ہو یا چرا ہوا ہے، بائع نے کہا: مجھے اس عیب کی خبر نہ تھی، اور مشتری اس کپڑے کو کاٹ بیونت کر چکا ہے، یا رنگ چکا ہے، تو مشتری کو اختیار ہے چاہے کپڑا رکھ لے اور بائع سے عیب کے موافق نقصان مجرا لے، چاہے کپڑا پھیر دے اور جس قدر کاٹ بیونت یا رنگ سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی ہے اس قدر بائع کو مجرا دے، اگر مشتری نے اس پر وہ رنگ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی، تب بھی مشتری کو اختیار ہوگا چاہے عیب کا نقصان بائع سے وصول کر کے کپڑا رکھ لے، چاہے بائع کا شریک ہوجائے اس کپڑے میں۔ اب دیکھا جائے گا کہ اس کپڑے کی قیمت عیب کے لحاظ سے کتنی ہے، مثلاً دس درہم ہو اور مشتری کے رنگنے کی وجہ سے پندرہ درہم قیمت ہوگئی ہو تو بائع دو تہائی کا اور مشتری ایک تھائی کا اس کپڑے میں شریک ہوگا، جب وہ کپڑا بکے اس کی قیمت کو اسی حساب سے بانٹ لیں گے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1452Q8]