سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے، تو اس کو اپنے پاس رکھیو، تو جب مکہ فتح ہوا، تو سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا: میرے بھائی کا بیٹھا ہے، اس نے وصیت کی تھی اس کے لینے کی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ لڑکا میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ دونوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، سعد نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بیٹا ہے میرے بھائی کا، اس نے مجھے وصیت کی تھی، اس بارے میں عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبد بن زمعہ سے: ”یہ لڑکا تیرا ہے۔“ پھر فرمایا: ”لڑکا ماں کے خاوند یا مالک کا ہوتا ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہیں۔“ پھر سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ”تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔“ کیونکہ وہ لڑکا مشابہ تھا عتبہ بن ابی وقاص کے، سو اس لڑکے نے نہ دیکھا سودہ کو یہاں تک کہ انتقال ہوا اس کا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1434]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2053، 2218، 2421، 2533، 2745، 4303، 6749، 6765، 6817، 7182، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1457، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4105، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3514، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5648، 5651، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2282، 2283، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2004، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2130، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11579، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3850، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24587، والحميدي فى «مسنده» برقم: 240، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13818، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 20»
حضرت عبداللہ بن ابی امیہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خاوند مر گیا تو اس نے چار مہینے دس دن تک عدت کی، پھر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، ابھی اس کے پاس ساڑھے چار مہینے رہی تھی کہ ایک لڑکا جنا خاصا پورا، تو اس کا خاوند سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے یہ حال بیان کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پرانی پرانی چند عورتوں کو جو جاہلیت کے زمانے میں تھیں، بلوایا اور ان سے پوچھا، ان میں سے ایک عورت بولی: میں تم کو اس عورت کا حال بتاتی ہوں، یہ حاملہ ہوگئی تھی اپنے پہلے خاوند سے جو مر گیا، تو حیض کا خون بچے پر پڑتے پڑتے وہ بچہ سوکھ گیا تھا اس کے پیٹ میں، تو جب اس نے دوسرا نکاح کیا، مرد کی منی پہنچنے سے پھر بچے کو حرکت ہوئی اور بڑا ہو گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق کی اور نکاح توڑ ڈالا، اور فرمایا کہ خیر ہوئی تمہاری کوئی بری بات مجھے نہیں پہنچی، اور لڑکے کا نسب پہلے خاوند سے ثابت کیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1435]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15559، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 4368، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 711، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13450، 13451، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 21»
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعویٰ کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے (یعنی نسب ثابت کر دیتے)۔ ایک بار دو آدمی دعویٰ کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو (یعنی قیافہ جاننے والے کو) بلایا، قائف نے دیکھ کر کہا: اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو درّے سے مارا، پھر اس عورت کو (یعنی لڑکے کی ماں کو) بلایا اور کہا: تو اپنا حال مجھ سے کہہ۔ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی، تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا (یعنی جماع کیا کرتا تھا)، یہاں تک کہ وہ بھی اور میں بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا، پھر یہ چلا جاتا اور مجھے خون آیا کرتا، تب دوسرا مرد آتا، وہ بھی صحبت کرتا، میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کس کا نطفہ ہے۔ قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا (کیونکہ اس کی بات سچی نکلی)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لڑکے سے: تجھے اختیار ہے، جس سے چاہے ان دنوں میں سے موالات کر لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1436]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21263، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5999، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12864، 13478، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6165، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 22»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی، یہ فیصلہ کیا کہ (وہ عورت لونڈی رہے اپنے مولیٰ کی، اور اولاد بھی اس کی مملوک ہے)، خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑا لے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1437]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم:219/7، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4257، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13155، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 23»