حضرت سلیمان بن یسار وغیرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کو حدِ قذف پڑی، پھر اس کی گواہی درست ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، جب وہ توبہ کر لے، اور اس کی توبہ کی سچائی اس کے اعمال سے معلوم ہو جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 1417]
حضرت ابن شہاب سے بھی یہی سوال ہوا، انہوں نے بھی ایسا ہی کہا جیسا حضرت سلیمان بن یسار نے کہا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 1418]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» تحت الحديث برقم: 20556، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 4ق2»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا: ”جو لوگ تہمت لگاتے ہیں نیک بخت بیبیوں کو، پھر چار گواہ نہیں لاتے، ان کو اسّی (80) کوڑے مارو، پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، وہی گنہگار ہیں، مگر جو لوگ توبہ کریں بعد اس کے، اور نیک ہو جائیں، تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: پس جو شخص حدِ قذف لگایا جائے، پھر توبہ کرے اور نیک ہو جائے، اس کی گواہی درست ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 1418B1]