ابوبکر بن حزم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جب زمین میں حدیں پڑ جائیں تو اس میں شفعہ نہ ہوگا، اور نہیں شفعہ ہے کنوئیں میں اور نہ کھجور کے نر درخت میں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14393، 14426، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11576، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22506، 22736، فواد عبدالباقي نمبر: 35 - كِتَابُ الشُّفْعَةِ-ح: 4»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ راستے میں شفعہ نہیں ہے، خواہ وہ تقسیم کے لائق ہو یا نہ ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح جب ایک مکان کی کوٹھریاں تقسیم ہو جائیں، پھر اس کے آنگن میں شفعہ نہ ہوگا، خواہ وہ تقسیم کے لائق ہو یا نہ ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مشتری نے خیار کی شرط سے زمین کے ایک حصّے کو خریدا تو شفیع کو شفعے کا حق نہ ہوگا، جب تک کہ مشتری کا خیار پورا نہ ہو، اور وہ اس کو قطعی طور پر نہ لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے زمین خریدی اور مدت تک اس پر قابض رہا، بعد اس کے ایک شخص نے اس زمین میں اپنا حق ثابت کیا تو اس کو شفعہ ملے گا، اور جو کچھ زمین میں منفعت ہوئی ہے وہ مشتری کی ہوگی جس تاریخ تک اس کا حق ثابت ہوا ہے، کیونکہ وہ مشتری اس زمین کا ضامن تھا اگر وہ تلف ہوجاتی یا اس کے درخت تلف ہوجاتے۔ اگر بہت مدت گزر گئی، یا گواہ مر گئے، یا بائع اور مشتری مر گئے، یا وہ زندہ ہیں مگر بیع کو بھول گئے بہت مدت گزرنے کی وجہ سے، اس صورت میں اس شخص کو اس کا حق تو ملے گا مگر شفعے کا دعویٰ نہ پہنچے گا۔ اگر زمانہ بہت نہیں گزرا ہے اور اس شخص کو معلوم ہوا کہ بائع نے قصداً شفعہ باطل کرنے کے واسطے بیع کو چھپایا ہے، تو اصل زمین کی قیمت اور جو اس میں زیادہ ہوگیا ہے اس کی قیمت وہ شخص ادا کرکے شفعہ لے لے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B4]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جیسے زندہ کے مال میں شفعہ ہے ویسے میت کے مال میں بھی شفعہ ہے۔ البتہ اگر میت کے وارث اس کے مال کو تقسیم کر لیں، پھر بیچیں تو اس میں شفعہ نہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B5]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک غلام اور لونڈی اور اونٹ اور گائے اور بکری اور جانور اور کپڑے میں شفعہ نہیں ہے، نہ اس کنوئیں میں جس کے متعلق زمین نہیں ہے، کیونکہ شفعہ اس زمین میں ہوتا ہے جو تقسیم کے قابل ہے اور اس میں حدود ہوتے ہیں، زمین کی قسم سے جو چیز ایسی نہیں ہے اس میں شفعہ بھی نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B6]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایسی زمین خریدی جس میں لوگوں کو حق شفعہ پہنچتا ہے تو چاہیے کہ شفیعوں کو حاکم کے پاس لے جائے، یا شفعہ لیں یا چھوڑ دیں، اگر مشتری شفیعوں کو حاکم کے پاس نہیں لے گیا لیکن ان کو خریدنے کی خبر ہوگئی تھی اور انہوں نے مدت شفعہ کا دعویٰ نہ کیا، بعد اس کے دعویٰ کیا تو مسموع نہ ہوگا [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الشُّفْعَةِ/حدیث: 1411B7]