سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے سبب سے شرع کی تین باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا جب آزاد ہوئیں ان کو اختیار ہوا اگر چاہیں اپنے خاوند کو چھوڑ دیں۔ دوسرا یہ کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا جب آزاد ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء اس کو ملے گی جو آزاد کرے۔“ تیسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی تھی، سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سالن پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہانڈی چڑھی ہوئی ہے گوشت کی۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ گوشت صدقہ کا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ ہے بریرہ پر اور ہدیہ ہے ہمارے واسطے بریرہ کی طرف سے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1160]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2536، 2561، 2563، 2564، 2565، 2578، 2717، 2726، 2729، 2735، 5097، 5279، 5284، 6717، 6751، 6754، 6758، 6760، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1075، 1504، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4269، 4271، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3477، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2407، 4996، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2233، 2234، 2235،، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2335، 2336، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2074، 2076، 2077، 2521، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1154، 1155، 1256، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 279، 1259، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10886، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24687، والحميدي فى «مسنده» برقم: 243، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13006، 13007، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 25»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: لونڈی اگر غلام کے نکاح میں ہو، پھر آزاد ہو جائے تو اس کو اختیار ہوگا، جب تک بعد آزادی کے اس کا شوہر اس سے جماع نہ کرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1161]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14285، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4269، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16529، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13018، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 26»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر خاوند نے آزادی کے بعد اس سے جماع کیا اور لونڈی نے یہ کہا کہ مجھ کو یہ اختیار کا مسئلہ معلوم نہیں تھا، تو عذر اس کا مسموع نہ ہوگا اور اس کو اختیار نہ رہے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1161B1]
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بنی عدی کی لونڈی جس کا نام زبراء تھا، ایک غلام کے نکاح میں تھی، وہ آزاد ہوگئی۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس کو بلایا اور کہا: میں تجھ سے ایک بات کہتی ہوں، مگر یہ نہیں چاہتی کہ تو کچھ کر بیٹھے، تجھے اختیار ہے جب تک تیرا خاوند تجھ سے جماع نہ کرے، اگر جماع کرے گا پھر تجھے اختیار نہ رہے گا۔ زبراء بول اٹھی: اگر ایسا ہی ہے تو طلاق ہے، پھر طلاق ہے، پھر طلاق ہے۔ جدا ہوگئی اپنے خاوند سے تین بار کہہ کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14332، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4270، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1250، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13017، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16802، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 27»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سعید بن مسیّب نے کہا: جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور خاوند کو جنون یا اور کوئی مرض (جیسے جزام یا برص) نکلے تو عورت کو اختیار ہے، خواہ مرد کے پاس رہے یا جدا ہو جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14331، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10708، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 28»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو لونڈی غلام کے نکاح میں آئے، پھر آزاد ہو جائے صحبت سے پہلے، اور خاوند سے جدا ہونا اختیار کرے تو اس کو مہر نہ ملے گا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے تھے: جب مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور عورت خاوند کو اختیار کرے تو طلاق نہ پڑے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے یہ اچھا سنا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جب مرد عورت کو اختیار دے اور عورت اپنی تئیں اختیار کرے (یعنی خاوند سے جدائی چاہے) تو تین طلاق پڑ جائیں گی۔ اگر خاوند کہے: میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا، تو یہ نہ سنا جائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر خاوند نے بی بی کو طلاق کا اختیار دیا، عورت نے کہا: میں نے ایک طلاق قبول کی، خاوند نے کہا: میری غرض یہ نہ تھی، میں نے تجھے تین طلاق کا اختیار دیا تھا، مگر عورت ایک ہی طلاق کو قبول کرے، زیادہ نہ لے تو وہ خاوند سے جدا نہ ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1163B1]
ابن شہاب رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب مرد اپنی بیوی کو اختیار دے دے، پھر وہ عورت اس (خاوند) کو اختیار کرلے تو یہ اختیار طلاق شمار نہیں ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہی وہ سب سے بہترین قول ہے جو (اس مسئلے میں) میں نے سنا ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1164]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 30»
امام مالک رحمہ اللہ نے مخیّرہ یعنی اختیار دی جانے والی عورت کے متعلق فرمایا کہ جب اس کا خاوند اسے (جدا ہوجانے کا) اختیار دے دے، پھر وہ اپنے آپ کو اختیار کرلے (اور خاوند کو چھوڑ دے) تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی، اگر اس کا خاوند یہ کہے کہ میں تجھے صرف ایک طلاق کے سوا کچھ اختیار نہیں دیا تھا تو یہ بات خاوند کے حق میں قبول نہیں ہوگی اور یہی وہ سب سے بہترین قول ہے جو میں نے سنا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1164B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اور اگر اس کا خاوند اسے اختیار دے دے اور وہ کہے کہ میں نے ایک طلاق قبول کرلی اور خاوند کہے کہ میں نے ایک طلاق (کے اختیار کو) مراد ہی نہیں لیا، میں نے تو تمہیں صرف اور صرف تین اکٹھی طلاقوں کا اختیار دیا تھا، تو (اس صورت میں) بلاشبہ عورت اگر ایک کے سوا کچھ قبول نہ کرے تو (اسے کوئی بھی طلاق نہ ہوگی) وہ خاوند کے پاس ٹھہری رہے گی اور یہ (عمل ان میں) جدائی (کا باعث) نہیں ہے۔ SA فائدہ: EA امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ باقی ائمہ اور اہل حدیث کے نزدیک مذکورہ صورت میں ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1164B2]