حضرت یحییٰ بن سعید کو پہنچا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ گیارھویں تاریخ کو نکلے جب کچھ دن چڑھا، تو تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی، پھر دوسرے دن نکلے جب کچھ دن نکلا اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی تاکہ ایک تکبیر دوسری تکبیر سے ملتے جلتے آواز بیت اللہ کو پہنچے اور لوگ جانیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رمی کرنے کو نکلے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 907]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے، اور شروع کی جائے تکبیر یوم النحر میں ظہر کی نماز کے بعد سے، اور ختم ہو تیرھویں تاریخ کی فجر پر، اور امام تکبیر کہے اور لوگ اس کے ساتھ تکبیر کہیں جب نماز سے فارغ ہوں، اور یہ تکبیر مرد اور عورت سب پر واجب ہے خواہ جماعت سے نماز پڑھیں یا اکیلے پڑھیں، منیٰ میں ہوں یا اور ملکوں میں، اور حجاج بعید کو چاہیے کہ منیٰ میں امام الحاج اور حجاج قریب امام کی پیروی کریں رمی جمار و تکبیرات میں، کیونکہ اس تقدیر پر جب وہ پڑھیں گے اور احرام تمام ہو جائے گا تو سب حجاج «حل» میں برابر رہیں گے۔ یعنی مناسک حج سے فارغ ہونے میں یہ سب برابر رہیں گے، مگر جو لوگ حاجی نہیں ہیں وہ لوگ حجاج کی پیروی نہ کریں مگر تکبیرات تشریق میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 907B1]