حضرت سلیمان بن یسار اور حضرت بسر بن سعید سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”بارانی اور زیرِ چشمہ یا تالاب کی زمین میں اور اس کھجور میں جس کو پانی کی حاجت نہ ہو دسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے، اور جو زمین پانی سینچ کر تر کی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 681]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 639، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1816، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7583، 7584، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4943، شركة الحروف نمبر: 557، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 33»
ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہو جاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق نہ لی جائیں گی، اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحبِ مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی، لیکن لی نہ جائیں گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الشافعي فى «الاُم» برقم: 31/2، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2313، شركة الحروف نمبر: 558، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 34»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مثال اس کی بکریوں کی ہے کہ بکریوں کے شمار میں بچوں کو بھی گن لیں گے مگر بچے زکوٰۃ میں نہ لیے جائیں گے، اور کبھی پھل ایسے ہوتے ہیں جو زکوٰۃ میں لینے کے قابل نہیں ہوتے بوجہ عمدگی کے، جیسے کھجور میں سے بروئی اور جو مشابہ ہے اس کے، اسی طرح جو پھل خراب ہوں وہ بھی نہیں لیے جائیں گے، بلکہ متوسط قسم کا مال لیا جائے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کسی پھل کا تخمینہ نہ کیا جائے گا مگر کھجور اور انگور کا، اُن کا تخمینہ کیا جائے گا جب وہ نکل آئیں، اور اُن کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے، اور بیع اُن کی درست ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھجور اور انگور پکنے کے بعد کھائے جاتے ہیں تو اس کا اندازہ کر لیں گے تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو اور اس کے مالک کو سپرد کر دیں گے کھائیں اس کو یا بیچیں۔ پھر زکوٰۃ ادا کریں گے اس حساب سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682B2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو پھل ایسے ہیں کہ کچے کھائے نہیں جاتے ہیں، اُن کا اندازہ کرنا درست نہیں، بلکہ جب مالک اُن کو کاٹ کاٹ کر صاف کر کے دانے نکالیں، تو جو واجبی طور سے اس کی زکوٰۃ ہو لی جائے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682B3]
کہا: ہمارے نزدیک اتفاقی مسئلہ یہ ہے کہ کھجور کا تخمینہ کیا جائے، جب وہ درخت میں لگی ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے اور اس کی بیع درست ہو جائے، پھر لی جائے زکوٰۃ اس کی جب کٹنے کا موسم آئے، اگر بعد تخمینے کے اُن پھلوں پر کوئی آفت آئے جس سے تمام پھل تلف ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، البتہ اگر پانچ وسق کے مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاع سے باقی رہ جائیں تو اس مقدار کی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس جس قدر تلف ہو جائے اُن کی زکوٰۃ نہ ہوگی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: انگور کا بھی یہی حکم ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682B4]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی شخص کے متفرق قطعات ہوں یا متفرق اموال میں کئی شریک ہوں اور مال ہر شریک کا یا قطعہ کا اس مقدار کو نہ پہنچا ہو جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اگر ہر شریک کے سب حصے یا تمام قطعات ملا کر نصاب کو پہنچیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ واجب نہ ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 682B5]