حضرت سفیان بن عبداللہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے متصدق (یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا) کر کے بھیجا، تو وہ بکریوں میں بچے کو بھی شمار کرتے تھے، لوگوں نے کہا: تم بچوں کو شمار میں داخل کرتے ہو لیکن بچہ نہیں لیتے ہو، تو جب آئے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس، بیان کیا اُن سے یہ امر، تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے، لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7397، 7398، 7410، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6806، 6808، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10079، والطبراني فى "الكبير"، 6395 امام نوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔، شركة الحروف نمبر: 551، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
اور نہ اس بکری کو جو اپنے بچے کو پالتی ہو، اور نہ حاملہ کو اور نہ نر کو، اور لیتے ہیں ہم ایک سال یا دو سال کی بکری کو جو متوسط ہے، نہ بچہ ہے نہ بوڑھی ہے نہ بہت عمدہ ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کسی شخص کی بکریاں نصاب سے کم ہوں اور مصدق کے آنے سے ایک دن پہلے وہ بکریاں بچہ جنیں، اور نصاب پورا ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی، اس لیے کہ اولاد بکریوں میں داخل ہے، اور یہ مسئلہ مخالف ہے اس مسئلہ کے کہ ایک شخص کے پاس نصاب سے کم بکریاں ہوں پھر خرید یا میراث یا ہبہ کی وجہ سے اور بکریاں آ جائیں، نظیر اس مسئلہ کی یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی قسم کا اسباب ہو جس کی قیمت نصاب سے کم ہو، پھر وہ اس کو اس قدر نفع سے بیچے جو نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ نفع کی راس المال کے ساتھ لازم آئے گی، اور اگر نفع اس کا ہبہ یا میراث ہوتا تو زکوٰۃ واجب نہ ہوتی جب تک اس پر ایک سال نہ گزرتا یا میراث کے زور سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674B3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: سو بچے بکریوں کے بکریوں میں داخل ہیں، جیسے کہ نفع مال کا اس مال میں داخل ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674B4]