امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر دو آدمی شریک ہوں جانوروں میں اس طرح: چرواہا ایک ہو اور نر جانور بھی ایک ہوں اور جانوروں کے رہنے کا مکان بھی ایک ہو اور پانی پلانے کا ڈول بھی ایک ہو تو اُن دونوں آدمیوں کو خلیطان کہیں گے، اگر ہر ایک اُن میں سے مال کو پہچانتا ہو، اور جو کوئی اپنے مال کو دوسرے کے مال سے تمیز نہ کر سکتا ہو تو اُن کو شریکان کہیں گے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: خلیطان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک ہر ایک کا مال بقدرِ نصاب کے نہ ہو۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس مسئلہ کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً ایک خلیط کی چالیس بکریاں یا زیادہ ہیں اور دوسرے خلیط کی چالیس سے کم ہیں، تو جس کی چالیس یا زیادہ ہیں اسی پر زکوٰۃ واجب ہے، اور جس کی چالیس سے کم ہیں اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر ہر خلیط کی بکریاں نصاب کے موافق ہوں تو دونوں سے ملا کر زکوٰۃ لی جائے گی، اور اگر ایک خلیط کی ہزار بکریاں یا کم ہیں اور دوسرے کی چالیس بکریاں یا زیادہ ہیں تو دونوں خلیطان ہیں، آپس میں زیادتی دوسرے سے پھیر لیں گے اپنے اپنے مال کے موافق، ہزار بکریوں پر اس کے موافق زکوٰۃ کا حصہ ہوگا اور چالیس بکریوں پر اس کے موافق حصہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اونٹوں میں سے خلیطان کا حکم مثل بکریوں کے خلیطان کے ہے، دونوں سے زکوٰۃ اکٹھی لی جائے گی۔ جب ہر ایک کے پاس اونٹ بقدرِ نصاب کے ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چرنے والی بکریوں میں جب چالیس ہو جائیں تو ایک بکری ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ قول بہت پسند ہے مجھ کو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q4]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جدا جدا مال اکٹھے نہ کیے جائیں اور اکٹھے جدا جدا نہ کیے جائیں زکوٰۃ کے خوف سے۔ یہ حکم جانوروں کے مالکوں کو ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q5]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: تفسیر اس قول کی یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس چالیس بکریاں تھیں، تو ہر ایک پر ایک ایک بکری واجب تھی، جب زکوٰۃ لینے والا آیا تو اُن تینوں نے اپنی بکریوں کو یکجا کر دیا تھا کہ ایک ہی بکری دینا پڑے، اس بات سے ممانعت ہوئی۔ اور مثلاً خلیطان میں سے ہر ایک کی ایک سو ایک، ایک سو ایک بکریاں ہیں تو سب ملا کر دو سو دو بکریاں ہیں ان میں سے تین بکریاں لازم آتی ہیں، جب زکوٰۃ لینے والا آیا تو اُن دونوں نے اپنی اپنی بکریوں کو جدا کردیا تاکہ ہر ایک کو ایک ہی بکری لازم آئے، اس سے ممانعت ہوئی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اور یہی میں نے سنا ہے اس باب میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 674Q6]