کئی ایک لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاگیر کر دی تھیں سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو کانیں قبلیہ کی جو فرع کی طرف ہیں، تو اُن کانوں سے آج تک کچھ نہیں لیا جاتا سوا زکوٰۃ کے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 658]
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3061، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7730، 11959، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2377، شركة الحروف نمبر: 535، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 8»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں تو یہ جانتا ہوں کہ کانوں میں سے جو مال برآمد ہو اس میں سے کچھ نہ لیا جائے جب تک قیمت اس کی بیس دینار یا دو سو درہم کو نہ پہنچے، البتہ جب اس قدر مال نکلے تو اس میں زکوٰۃ لی جائے، اور جو اس سے بھی زیادہ کا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ لی جائے جب تک کان سے آمدنی جاری ہو، اور جب آمدنی بند ہو جائے پھر شروع ہو تو زکوٰۃ بھی پھر شروع ہوگی جیسے پہلے آمدنی میں شروع ہوتی تھی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 658B1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: کام مثل زراعت کے ہے، جیسے زراعت میں جب مال پیدا ہو تو زکوٰۃ لی جائے، اسی طرح کان میں مال برآمد ہو تو زکوٰۃ لی جائے، سال گزرنا ضروری نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 658B2]