اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو جھکا دیتے سر اپنا میری طرف، سو میں کنگھی کر دیتی، اور گھر میں نہ آتے مگر حاجتِ ضروری کے واسطے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 644]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 295، 2028، 2029، 2046، 5925، 5925 م، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 297، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2230، 2231، 2232، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1359، 3668، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 388، 277، 278، 279، 387، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 265، 266، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2467، بدون ترقيم، 2469، والترمذي فى «جامعه» برقم: 804، 805، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1098، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 633، 1776، 1778، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 897، 1500، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24675، 24875، والحميدي فى «مسنده» برقم: 184، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4632، والبزار فى «مسنده» برقم:، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1031، شركة الحروف نمبر: 639، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 1»
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب اعتکاف کرتیں تو بیمار پرسی نہ کرتیں مگر چلتے چلتے، ٹھہرتی نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 645]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 1776، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3357، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8056، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9726، 9735، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2643، شركة الحروف نمبر: 640، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 2»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اعتکاف کرے وہ کسی کام کو نہ نکلے، اور نہ جائے اور نہ مدد کرے کسی کی، مگر حاجتِ ضروری کے واسطے نکلے، اور اگر معتکف کو کسی کام کے لیے نکلنا درست ہوتا تو چاہیے تھا کہ بیمار پرسی یا نمازِ جنازہ یا دفن کے واسطے نکلنا درست ہوتا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 645B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اعتکاف درست نہیں ہوتا جب تک معتکف بیمار پرسی یا نمازِ جنازہ کے لیے گھروں میں جانے سے نہ بچے، اور نہ نکلے مگر حاجتِ ضروری کے لیے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 645B2]
امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا ابن شہاب سے کہ معتکف کو پَٹے ہوئے مکان میں حاجتِ ضروری کو جانا درست ہے؟ بولے: ہاں، درست ہے، کچھ حرج نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 641، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 3»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک حکم یہ ہے، جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ اعتکاف اس مسجد میں مکروہ نہیں ہے جس میں جمعہ ہوتا ہے، اور جن میں جمعہ نہیں ہوتا اُن میں اعتکاف اسی وجہ سے مکروہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے لیے نکلنا پڑے گا یا جمعہ ترک کرنا ہوگا، سوا اگر کوئی شخص ایسا ہو جس پر جمعہ فرض نہیں ہے اور وہ اعتکاف کرے اس مسجد میں جس میں جمعہ نہیں ہوتا کچھ قباحت نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا «﴿وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ [البقرة: 187] » اور کسی مسجد کو خاص نہیں کیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی وجہ سے جس پر جمعہ واجب نہیں ہے اس کو اعتکاف کرنا اس مسجد میں جہاں جمعہ نہیں ہوتا درست ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B2]
کہا مالک رحمہ اللہ نے: معتکف رات کو نہ رہے مگر مسجد میں جہاں اس نے اعتکاف کیا ہے، البتہ اگر اس کا خیمہ مسجد کے صحن میں ہو تو وہاں رہنا درست ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B3]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے یہ نہیں سنا کہ معتکف خیمہ کھڑا کرے رات کے رہنے کے لیے مسجد میں یا اس کے صحن میں، اور اس پر دلالت کرتا ہے قول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو گھر میں نہ جاتے مگر حاجتِ ضروری کے واسطے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B4]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مسجد کی چھت یا مینار پر اعتکاف کرنا درست نہیں ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص کو اعتکاف کرنا کسی جگہ منظور ہو تو قبل غروبِ آفتاب کے وہاں داخل ہو جائے تاکہ جس رات اس کو اعتکاف کرنا منظور ہے وہ پوری ہاتھ آئے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B5]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معتکف کو سوا اپنے اعتکاف کے دوسرا شغل مثل تجارت وغیرہ کے درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کام کی ضرورت ہو تو اپنے لوگوں سے کہہ سکتا ہے، مثلاً کوئی بات متعلق ہو اپنے پیشہ یا تجارت کے یا خانگی کوئی کام ہو یا کوئی چیز بیچنا ہو یا کچھ کام، تو دوسروں سے کہہ سکتا ہے اس طرح پر کہ دل اس کا اس میں مشغول نہ ہو جائے، اور وہ کام خفیف ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B6]
کہا مالک رحمہ اللہ نے: میں نے کسی اہلِ علم سے نہیں سنا جو اعتکاف میں کسی شرط کا لگاتا ہو، بلکہ اعتکاف بھی ایک عمل ہے اعمالِ خیر میں سے، مثل نماز اور روزہ اور حج کے۔ فرائض ہوں یا نوافل جو شخص کوئی عملِ خیر کرے تو چاہیے کہ طریقہ سنّت کا اختیار کرے، اور یہ بات درست نہیں ہے کہ کوئی طریقہ نیا نکالے جو اگلے مسلمانوں میں نہ تھا، نہ کوئی شرط ایجاد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا اور مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کو دیکھ کر اس کا طریقہ پہچان لیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B7]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اعتکاف اور جوار ایک ہیں، اسی طرح اعتکاف صحرائی اور شہری آدمی کا یکساں ہے تمام احکام میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الِاعْتِكَافِ/حدیث: 646B8]