حضرت عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھی تھی سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے واسطے اس میں یہ بھی تھا کہ: ”قرآن نہ چھوئے مگر جو شخص باوضو ہو۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقُرْآنِ/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18743، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1388، 6793، وأبو داود فى «المراسيل» برقم: 93، والدارمي فى «سننه» برقم: 2266، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6559، شركة الحروف نمبر: 430، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 1»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی شخص کلام اللہ کو فیتہ پکڑ کر یا تکیہ پر رکھ کر نہ اُٹھائے مگر وضو سے۔ اگر فیتہ پکڑ کر یا تکیہ پر رکھ کر بے وضو اُٹھانا درست ہوتا تو جلد کو بھی بے وضو چھونا درست ہوتا۔ اور بے وضو چھونا کلام اللہ کا اس لیے مکروہ ہے کہ اس کی عظمت اور شان کے خلاف ہے، نہ اس لیے کہ اُٹھانے والے کے ہاتھ میں کوئی نجاست ہو اور وہ مصحف میں لگ جائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقُرْآنِ/حدیث: 469B1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ احسن اس باب میں یہ آیت ہے: «﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة: 79] »”نہیں چھوئیں اس کو مگر پاک لوگ۔“ اور یہ آیت قریب ہے اس آیت کے جو «﴿عَبَسَ وَتَوَلَّى﴾» میں ہے کہ «﴿كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ. فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ. فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ. مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ. بِأَيْدِي سَفَرَةٍ. كِرَامٍ بَرَرَةٍ﴾ [عبس: 12] » یعنی ”کلام اللہ ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اس کو قبول کرے، بڑے عزت والے جلدوں میں، جو پاک ہیں بڑے بزرگ نیک پیغمبروں کے ہاتھ میں ہے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْقُرْآنِ/حدیث: 469B2]