سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں آئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جس وقت گہن لگا آفتاب کو، تو دیکھا میں نے لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی تھیں، تو میں نے کہا: کیا ہوا لوگوں کو؟ تو اشارہ کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف، اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اشارہ سے کہا: ہاں، کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے: تو میں کھڑی ہوئی یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی اللہ کی اور ثناء کی اس کی، پھر فرمایا: ”جو چیز میں نے نہ دیکھی تھی وہ آج میں نے دیکھ لی اس جگہ، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا اور مجھے وحی سے معلوم ہوا کہ قبر میں تم فتنہ میں پڑ جاؤ گے، مثل فتنہ دجال کے یا اس کے قریب۔“ معلوم نہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا، ”آئیں گے اس کے پاس فرشتے تو پوچھیں گے اس سے: تو کیا سمجھتا ہے اس شخص کو (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) تو جو ایمان رکھتا ہے یا یقین رکھتا ہے“، معلوم نہیں کیا کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے، ”وہ کہے گا: یہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ جل جلالہُ کے بھیجے ہوئے ہمارے پاس، کھلی کھلی نشانیاں اور ہدایت یعنی کلام اللہ لے کر، پس قبول کیا ہم نے اور ایمان لائے ہم اور پیروی کی ہم نے اُن کی، تب فرشتے اس سے کہیں گے: سو رہ اچھی طرح، ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ تو مومن ہے، اور منافق یا جس کو شک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں“، معلوم نہیں کیا کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما نے، ”وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، لوگوں سے میں نے جو سنا وہ کہا۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ صَلَوٰةِ الْخُسُوْفِ/حدیث: 447]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 86، 184، 1053، 1235، 7287، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 905، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3114، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3472، 6450، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27567، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12163، 38665، والطبراني فى "الكبير"، 213، 312، 313، شركة الحروف نمبر: 411، فواد عبدالباقي نمبر: 12 - كِتَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ-ح: 4»