956- سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پتھر بھی مارے تھے۔ اس دوران نماز کا وقت ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رکے رہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے والی صف تک پہنچے، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک ایسے فرد تھے، جو نماز کے دوران ادھر ادھر توجہ نہیں کرتے تھے، جب انہوں نے تالیوں کی آواز سنی اور توجہ کی، تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور الٹے قدموں پیچھے ہٹ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کیا پھر تم کو کس بات نے روکا“؟ (کہ تم میرے حکم پر عمل کرو) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ، ابوقحافہ کے بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نہیں دیکھے گا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! کیا وجہ ہے کہ جب نماز کے دوران تمہیں ضرورت پیش آئی تو تم نے تالیاں بجانا شروع کردیں؟ تالیا ں بجانے کاحکم خواتین کے لیے ہے، مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنے کاحکم ہے۔ جس شخص کو نماز کے دوران (امام کو متوجہ کرنے کے لیے) کوئی ضرورت پیش آجائے، تو وہ سبحان اللہ کہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 684، 1201، 1204، 1218، 1234، 2690، 2693، 7190، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 421، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2260، 2261، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4485، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 783، 792، 1182، وأبو داود فى «سننه» برقم: 940، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1035، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3380، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23264، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7513، 7517، 7524، 7545»