853- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ»(22-الحج:1)”اے لوگو! تم اپنے پروردگار سے ڈرو! بے شک قیامت کازلزلہ عظیم چیز ہے۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم لوگ یہ جانتے ہو یہ کون سادن ہے؟“ لوگوں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم! اٹھو اور اہل جہنم کو (ان کے مخصوص ٹھکانے کی طرف) بھیج دو تو وہ عرض کریں گے: اے میرے پروردگار! اہل جہنم کتنے لوگ ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہر ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔“ راوی کہتے ہیں: تو حاضر ین نے رونا شروع کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب بھی اسلام آیا اس سے پہلے جاہلیت موجود تھی، تو اس تعداد کو زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے پورا کیا جائے گا۔ اگر وہ اس سے بھی پورے نہ ہوئے، تو منافقین کے ذریعے اس تعداد کو مکمل کیا جائے گا۔ تمہاری مثال دیگر امتوں کے درمیان اسی طرح ہے، جس طرح کسی جانوروں کی کلائی (یعنی اگلی ٹانگ) پر نشان ہوتا ہے۔ یا اونٹ کے پہلوں میں شامہ (معمولی سا کالانشان) ہوتا ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: ”مجھے یہ امید ہے، تم لوگ اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ امید ہے، تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ اہل جنت کا نصف ہوگے“، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: میری یاداشت کے مطابق صرف نصف تک کا تذکرہ ہے ویسے میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ”مجھے یہ امید ہے، تم اہل جنت کا دو تہائی حصہ ہوگے“(یا پھر یہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ کہا ہے)