769- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد سے لے کر سورج غروب ہونے کے قریب تک ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت قائم ہونے تک کی ہر بڑی چیز کے بارے میں ہمیں بتادیا، تو جس شخص کو اس کا علم ہے اسے علم ہے، اور جو شخص ناواقف رہا۔ وہ ناواقف ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ دنیا سر سبز اور میٹھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہیں اپنا نائب مقرر کیا ہے، تاکہ وہ اس بات کو ظاہر کرے کہ تم کیا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے بچنا اور خواتین کے بارے میں احتیاط کرنا۔ یادرکھنا! قیامت کے دن غداری کرنے والے کے لیے ایک مخصوص جھنڈا ہوگا، جواس کی غداری کے حساب سے ہوگا اور یہ جھنڈا اس کی سرین کے پاس ہوگا۔ یادرکھنا! سب سے افضل جہاد حق بات کہنا ہے (یہاں سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ لفظ نقل کرتے ہیں) انصاف کی بات کہنا ہے ظالم حکمران کے سامنے۔“ راوی بیان کرتے ہیں۔ پھر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بولے: ہم نے کتنے ہی منکرات دیکھے۔ لیکن ہم نے ان کا انکار نہیں کیا۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا)”خبردار اولاد آدم کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں سے کچھ لوگوں کو مومن پیدا کیا جاتا ہے، وہ مومن ہونے کے طور پرہی زندہ رہتے ہیں اور مومن ہونے کے طور پرہی مرتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کافر ہونے کے طور پر زندہ رہتے ہیں اور کافر ہونے کے طور پر مرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو مومن ہونے کے طور پر پیدا کیا جاتا ہے وہ مومن ہونے کے طور پر زندہ رہتے ہیں اور کافر ہونے کے طور پر مرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کافر کے طور پر زندہ رہتے ہیں، لیکن مرتے وقت مومن ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں۔ جن کو غصہ جلدی آتا ہے اور ا ن کا عضہ ختم بھی جلدی ہو جاتا ہے، تو یہ برابر ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں، جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے اور ان غصہ ختم بھی دیر سے ہوتا ہے۔ یہ بھی برابر ہیں۔ یادرکھنا غصے ہونا اگر کا یک انگارہ ہے، تو تم میں سے جو شخص اس کیفیت کو محسوس کرے اگر وہ کھڑا ہوا ہو، تو بیٹھ جائے اگر بیٹھا ہوا، تو لیٹ جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وقد استوفينا تخريجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1101، 1212، 1213، 1232، 1245، 1293، 1297، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 275، 278، 1378، 3221، 5591، 5592، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده" برقم: 864، 867، 869، 912، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6607، 6807»