222- ابن ابوملیکہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے میں شریک ہوا جنازے میں سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تھے ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ خواتین نے رونا شروع کیا، تو سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے: زندہ شخص کے میت پر رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: (ایک مرتبہ) ہم لوگ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ سے) واپس آرہے تھے، جب ہم ”بیداء“ کے مقام پر پہنچے تو وہاں کچھ سوار ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عبداللہ! تم جاؤ اور جا کر دیکھو کہ یہ سوار کون ہیں؟ پھر میرے پاس آؤ۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں گیا، میں نے واپس آکر بتایا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ان سے کہو کہ ہمارے ساتھ املیں، جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ ہی عرصے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا گیا۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ آئے وہ کہ کہہ رہے تھے: ہائے میرا بھائی! ہائے میرا ساتھی! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: رک جاؤ اے صہیب! میت کو زندہ شخص کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سيدنا عبدااللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولیں: اللہ تعالیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”بے شک اللہ تعالیٰ کافر کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے۔“(یعنی عذاب کے ساتھ اسے اپنے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بھی تکلیف ہوتی ہے)۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دے دیا ہے۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى»”کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 222]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1286، 1287، 1288، ومسلم: 929، 930، 932، وابن حبان فى ”صحيحه“: 3135، 3136، 3137، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 295»