89- ابوماجد حنفی بیان کرتے: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ایک شخص ایک شرابی کو لے کر آیا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے ذرا ہلا جلا کر دیکھو یا اس کا منہ سونگھو۔ راوی کہتے ہیں: اسے ہلایا گیا اور اس کا منہ سونگھا گیا، تو وہ نشے میں تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے قید کردو، اسے قید کردیا گیا۔ اگلے دن اس شخص کو وہاں لایا گیا، میں بھی وہاں موجود تھا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کوڑا منگوایا تو ان کی خدمت میں ایک ایسا کوڑا لایا گیا جس پر پھل لگا ہوا تھا۔ ان کے حکم کے تحت اس پھل کو اتار لیا گیا پھر اس کے کنارے کو باریک کیا گیا، یہاں تک کہ وہ درہ بن گیا۔ راوی کہتے ہیں: انہوں نے اپنی انگلی کے ذریعے اس طرح اشارہ کیا اور کوڑے مارنے والے یہ کہا کہ تم اسے مارو اور اپنا ہاتھ پیچھے لے کر جاؤ اور ہر عضو کو اس کا حق دو۔ انہوں نے اسے کوڑے اس طرح لگوائے کہ اس نے قمیض پہنی ہوئی تھی اور تہبند بھی تھا۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) قمیض اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمایا: جو بھی شخص متعلقہ اہل کار ہو اس کے لیے بات مناسب نہیں ہے کہ جب اس کے پاس کوئی قابل حد مجرم لایا جائے، تو وہ حد جاری نہ کرے باقی اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے، وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ ایک صاحب بولے: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ میرا بھتیجا ہے، میری کوئی اولاد نہیں ہے، لیکن مجھے اس کے لیے اپنے دل میں وہ محبت محسوس نہیں ہوتی جو مجھے اپنی اولاد کے لیے محسوس ہوتی ہے، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! پھر تو تم یتیم کے انتہائی برے نگران ہو نہ تم نے اس کی اچھی تربیت کی اور نہ اس کی خرابی پر پردہ رکھا۔ پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بتایا: مجھے یہ بات پتہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کٹوایا تھا (وہ کون تھا؟) انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص لایا گیا اس نے چوری کی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوادیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خاک ڈال دی گئی ہو۔ یہاں سفیان نامی روای نے اپنی ہتھیلی کے ذریعے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا اور اپنی ہتھیلی کو کچھ بند کرلیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید یہ بات پسند نہیں آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے کیا چیز رکاوٹ ہے، لیکن تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ کسی والی کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس حد سے متعلق کوئی مقدمہ لایا جائے، تو وہ اسے قائم نہ کرے باقی اللہ معاف کرنے والا ہے اور وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی۔ ”انہیں چاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کردے۔“ سفیان کہتے ہیں: میں یحییٰ الجابر کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: تم اپنی تختی نکالو۔ میں نے کہا: میرے پاس کوئی تختی نہیں ہے۔ اس وقت انہوں نے یہ حدیث مجھے سنائی اور اس کے ساتھ دوسری حدیثیں بھی سنائیں، تو مجھے یہ حدیث یاد نہیں ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے دوبارہ مجھے یہ حدیث سنائی۔ سفیان کہتے ہیں: تو گویا میں نے دو مرتبہ اس حدیث کو یاد کیا ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 89]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو يعلى فى "مسنده"، برقم: 5155، وعبد الرزاق فى "مصنفه"، برقم: 13519، وأحمد فى "مسنده"، برقم: 3787، برقم: 4057، برقم: 4253، برقم: 4254»