سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”حج اور عمرے کو آگے پیچھے کرو، کیونکہ ان دونوں کو آگے پیچھے کرنا زندگی میں اضافہ کرتا ہے غربت اور گناہوں کو ختم کر دیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کر دیتی ہے۔“ سفیان کہتے ہیں: یہ روایت عبدالکریم نامی راوی نے عبدہ نامی راوی کے حوالے سے اور انہوں نے عاصم کے حوالے سے بیان کی تھی۔ جب عبدہ آئے، تو ہم اس روایت کے بارے میں دریافت کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے بتایا: عاصم نے یہ روایت مجھے سنائی ہے اور عاصم بھی یہاں موجود ہیں، یعنی اسی شہر میں ہیں، تو ہم لوگ عاصم کے پاس گئے اور ان سے روایت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے یہ روایت اسی طرح ہمیں سنائی۔ پھر اس کے بعد میں نے انہیں سنا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اس روایت کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک ”موقوف“ روایت کے طور پر بیان کیا اور ایک مرتبہ انہوں نے اس کی سند میں اپنے والد کا تذکرہ نہیں کیا۔ تاہم اکثر اوقات وہ اس روایت کو عبداللہ بن عامر کے حوالے سے، وہ ان کے والد کے حوالے سے، وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے۔ سفیان کہتے ہیں: بعض اوقات وہ ہمارے سامنے یہ الفاظ بھی بیان نہیں کرتے تھے: ”یہ دونوں زندگی میں اضافہ کرتے ہیں۔“ تو ہم ان کلمات کو حدیث میں بیان نہیں کرتے ہیں اس اندیشے کے تحت کہ کہیں وہ لوگ اس کے ذریعے استدلال نہ کریں۔ سفیان کی مراد وہ لوگ تھے جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ اس روایت میں ان لوگوں کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 17]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن متن صحيح وأخرجه الضياء المقدسي فى «الأحاديث المختارة» برقم: 143، 144، 160، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2887، 2887 م، وأحمد فى «مسنده» برقم: 169، 15938، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 198، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8797، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12781، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5529»