حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہجرت کی تھی، لہٰذا ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا، اب ہم میں سے کچھ لوگ دنیا سے چلے گئے اور اپنے اجر و ثواب میں سے کچھ نہ کھا سکے، ان ہی افراد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، جو غزوہ احد کے موقع پر شہید ہو گئے تھے اور ہمیں کوئی چیز انہیں کفنانے کے لئے نہیں مل رہی تھی، صرف ایک چادر تھی جس سے اگر ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھلے رہتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر کھلا رہ جاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخرنامی گھاس ڈال دیں اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا پھل تیار ہو گیا ہے اور وہ اسے چن رہے ہیں۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27214]
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر اور عصر میں قرأت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27215]
قیس کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے وہ اپنے باغ کی تعمیر میں مصروف تھے، ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کو ہر چیز میں ثواب ملتا ہے، سوائے اس کے جو وہ اس مٹی میں لگاتا ہے، انہوں نے سات مرتبہ اپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کی دعا ضرور کرتا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27216]
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا کیجئے اور مدد مانگیے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کے لئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے اور آرے لے کر سر پر رکھے جاتے اور ان سے سر کو چیر دیا جاتا تھا، لیکن یہ چیز بھی انہیں ان کے دن سے برگشتہ نہیں کرتی تھی، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے پیچھے گوشت، پٹھوں میں گاڑی جاتی تھیں لیکن یہ تکلیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ اس دین کو پورا کر کے رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اور حضر موت کے درمیان سفر کرے گا جس میں اسے صرف اللہ کا خوف ہو گا یا بکری پر بھیڑیے کے حملے کا، لیکن تم لوگ جلد باز ہو۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27217]
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے نماز ظہر کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”میری بات سنو“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے لبیک کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”میری بات سنو“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر حسب سابق جواب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم پر کچھ حکمران آئیں گے، تم ظلم پر ان کی مدد نہ کرنا اور جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر ہرگز نہیں آ سکے گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27218]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع ، سماك بن حرب لم يسمع من عبدالله بن خباب
حارثہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے، تو میں ضرور اس کی تمنا کر لیتا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہ وہ وقت بھی دیکھا ہے، جب میرے پاس ایک درہم نہیں ہوتا تھا اور اس وقت میرے گھر کے کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، پھر ان کے پاس کفن کا کپڑا لایا گیا، تو وہ اسے دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: لیکن حمزہ کو کفن نہیں مل سکا، سوائے اس کے کہ ایک منقش چادر تھی، جسے اگر ان کے سر پر ڈالا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں پر ڈالا جاتا تو سر کھل جاتا، بالآخر اسے ان کے سر پر ڈال دیا گیا اور ان کے پاؤں پر اذخر نامی گھاس ڈال دی گئی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27219]