الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ
1247. حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ الْكَعْبِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 27159
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا، أَوْ لِيَصْمُتْ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27159]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6135، م: 48
حدیث نمبر: 27160
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، قالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي الْمَقْبُرِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا، فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ , فَقَالَ: أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي، وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ، وَهِيَ سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ، وَإِنِّي عَاقِلُهُ، فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ، فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ، إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا، أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دے دیا تھا، لوگوں نے اسے حرم قرار نہیں دیا، لہٰذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ! اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کر دیا ہے، میں اس کی دیت دے دوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہوگا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27160]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 27161
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ , جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَهُوَ صَدَقَةٌ , لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُخْرِجَهُ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام جائزہ سے کرنا چاہئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! جائزہ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے اس سے زیادہ جو ہو گا وہ اس پر صدقہ ہو گا اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کر دے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27161]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6135، م: 48
حدیث نمبر: 27162
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ" , قَالُوا: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْجَارُ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا بَوَائِقُهُ؟ قَالَ:" شَرُّهُ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ جملہ دہرایا کہ وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون؟ فرمایا: جس کے پڑوسی اس کے «بوائق» سے محفوظ نہ ہوں، صحابہ نے «بوائق» کا معنی پوچھا تو فرمایا: شر۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27162]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6016
حدیث نمبر: 27163
حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحِ بْنِ عَمْرٍو الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الصُّعُدَاتِ، فَمَنْ جَلَسَ مِنْكُمْ عَلَى الصَّعِيدِ، فَلْيُعْطِهِ حَقَّهُ" , قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهُ؟ قَالَ:" غُضُوضُ الْبَصَرِ , وَرَدُّ التَّحِيَّةِ , وَأَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کیا کرو، جو شخص وہاں بیٹھ ہی جائے تو اس کا حق بھی ادا کرے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نگاہیں جھکا کر رکھنا، سلام کا جواب دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27163]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، من أجل عبدالله بن سعيد
حدیث نمبر: 27164
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ المقبري ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ , أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حَيْثُ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ فِيهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ" ، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ، وَلَا فَارًّا بِجِزْيَةٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ حَجَّاجٌ: بِجِزْيَةٍ، وَقَالَ يَعْقُوبُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ : وَلَا مَانِعَ جِزْيَةٍ.
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مقابلے کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف اپنا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے، اس سے بات کی اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا، پھر اپنی قوم کی مجلس میں آکر بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں! فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے فتح مکہ سے اگلے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا، وہ مقتول مشرک تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دے دیا تھا، لہٰذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے، یہ مجھ سے پہلے نہ کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گا اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا، یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل گزشتہ کی طرح ہو چکی ہے، یاد رکھو تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غائبین تک یہ بات پہنچا دیں اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ! اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھا لو کہ بہت ہو چکا، اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کر دیا ہے، میں اس کی دیت دے دوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہو گا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی دیت ادا کر دی جسے بنو خزاعہ نے قتل کر دیا تھا یہ حدیث سن کر عمرو بن سعید نے حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے کہا: بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں، ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں، یہ حرمت کسی خون ریزی کرنے والے، اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کر سکتی، میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا، تم غائب تھے اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا، سو میں نے تم تک یہ حکم پہنچا دیا، اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27164]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 27165
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ مِنْ خُزَاعَةَ وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثٌ , وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا يُؤْثِمُهُ، قَالَ:" يُقِيمُ عِنْدَهُ، وَلَا يَجِدُ شَيْئًا يَقُوتُهُ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے، اس سے زیادہ جو ہوگا وہ اس پر صدقہ ہوگا اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کر دے، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! گناہگار کرنے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ میزبان کے یہاں ٹھہرا رہے جبکہ میزبان کے پاس اسے کھلانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27165]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح