امام عامر شعبی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک دستہ کے ساتھ روانہ فرما دیا، تو مجھ سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اس گھر سے نکل جاؤ! میں نے اس سے پوچھا کہ کیا عدت ختم ہونے تک مجھے نفقہ اور رہائش ملے گی؟ اس نے کہا: نہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی اور عرض کیا کہ فلاں شخص نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اس کا بھائی مجھے گھر سے نکال رہا ہے اور نفقہ اور سکنی بھی نہیں دے رہا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیج کر اسے بلایا اور فرمایا: ”بنت آل قیس کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے؟“ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے بھائی نے اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنت آل قیس! دیکھو شوہر کے ذمے اس بیوی کا نفقہ اور سکنی واجب ہوتا ہے جس سے وہ رجوع کر سکتا ہو اور جب اس کے پاس رجوع کی گنجائش نہ ہو تو عورت کو نفقہ اور سکنی نہیں ملتا، اس لئے تم اس گھر سے فلاں عورت کے گھر منتقل ہو جاؤ“، پھر فرمایا: ”اس کے یہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں اس لئے تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ، کیونکہ وہ نابینا ہیں اور تمہیں دیکھ نہیں سکیں گے اور تم اپنا آئندہ نکاح خود سے نہ کرنا بلکہ میں خود تمہارا نکاح کروں گا“، اسی دوران مجھے قریش کے ایک آدمی نے پیغام نکاح بھیجا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس شخص سے نکاح نہیں کر لیتیں جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کرا دیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا، [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 27100]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه دون قوله: "انظري يا بنت آل قيس، ... ما كانت عليها رجعة" فهو مدرج من قول مجالد
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے پیغمبر کی خوشی تم تک پھیلا دوں چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے، وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا اور پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا وہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے انہیں ان پر غالب کر دیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک خدا، ایک دین اور ایک کلمہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: زغر چشمے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے، لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی اس سے سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا: عمان اور بیسان کے درمیان باغ کیا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے پوچھا: بحیرہ طریہ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے، اس پر وہ تین مرتبہ بےچینی اور قسم کھا کر کہنے لگا: اگر میں اس جگہ سے نکل گیا، تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں، سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے کوئی قدرت نہیں ہو گی“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا) مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک کے لئے تلوار سونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کوئی سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”وہ مشرق کی جانب ہے۔“ پھر میں قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی انہوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ اور مدینہ دجال پر حرام ہوں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 27101]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2942، وهذا اسناد ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، وقد توبع
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرے کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے کے اندر داخل ہوئے، تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا، پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا؟ کیا وہ ان پر غالب آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک تو اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا کہ یاد رکھو! عنقریب وہ ان پر غالب آ جائیں گے، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، پھر اس نے کہا: نخل بیسان کا کیا بنا؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے، اس پر وہ اتنا اچھلا کہ ہم سجھے یہ ہم پر حملہ کر دے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دیدی جائے گی، پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کر دیا گیا ہے“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانو! خوش ہو جاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہو سکے گا۔“[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 27102]