حضرت ابو عبدالرحمن فہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ حنین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا ہم شدید گرمی کے ایک گرم ترین دن میں روانہ ہوئے راستے میں ایک جگہ سایہ دار درختوں کے نیچے پڑاؤ کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنا اسلحہ زیب تن کیا اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے میں نے السلام علیک یا رسول اللہ " کہہ کر پوچھا کہ کوچ کا وقت ہوگیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آواز دی وہ ببول کے نیچے سے اس طرح کودے جیسے کسی پرندے کا سایہ ہو اور عرض کیا لبیک وسعدیک، میں آپ پر قربان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھوڑے پر زین کس دو، چنانچہ انہوں نے ایک زین نکالی جس کے دونوں کنارے کھجور کی چھال سے بھرے ہوئے تھے اور جس میں کوئی غرور وتکبر نہ تھا اور اسے کس دیا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوگئے میدان جنگ میں عشاء کے وقت سے ساری رات ہم لوگ صف بندی کرتے رہے جب دونوں جماعتوں کے گھوڑے ایک دوسرے میں گھسے تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور رسول تو یہاں موجود ہوں پھر فرمایا اے گروہ مہاجرین! میں اللہ کا بندہ اور رسول تو یہاں موجود ہوں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے سے کودے اور مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی آدمی کی اطلاع کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی دشمن کے چہروں پر پھینک دی اور فرمایا یہ چہرے بگڑ جائیں، چنانچہ اللہ نے مشرکین کو شکت سے دو چار کردیا۔ مشرکین خود اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک بھی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گیا ہو اور ہم نے زمین و آسمان کے درمیان ایسی آواز سنی جیسے لوہے کو لوہے کی پلیٹ پر گذارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 22467]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى همام عبدالله بن يسار