حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اسے یوں شمار کراتے ہیں کہ دو سال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ہوئے دس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اور چھ سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے (کل تیس سال ہوگئے)[مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21919]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی اونٹنی کو ایک تیز دھار لکڑی سے ذبح کرلیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21920]
حكم دارالسلام: إسناده معضل ضعيف، يحيى لم يدرك سفينة، بينهما راويان مجهولان
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چونکہ وہ بہت سا بوجھ اٹھا لیا کرتے تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہہ دیا کہ تم تو سفینہ (کشتی) ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21921]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا ”جو آراستہ و منقش ہو“ مناسب نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21922]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھا ہم ایک وادی میں پہنچے، میں لوگوں کا سامان اٹھا کر اسے عبور کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21924]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، شريك سيئ الحفظ
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے جب کوئی آدمی تھک جاتا تو وہ اپنی تلوار، ڈھال اور نیزہ مجھے پکڑا دیتا، اس طرح میں نے بہت ساری چیزیں اٹھالیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21925]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا " جو آراستہ ومنقش ہو " مناسب نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21926]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے مجھے آزاد کردیا اور یہ شرط لگا دی کہ تا حیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21927]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اسے یوں شمار کراتے ہیں کہ دو سال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ہوئے دس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اور چھ سال حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے (کل تیس سال ہوگئے)
راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جمہان سے پوچھا کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ انہوں نے کہا حجاج بن یوسف کے زمانے میں بطن نخلہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں آٹھ راتیں ان کے یہاں مقیم رہا تھا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پوچھتا رہا تھا، میں نے ان سے ان کا نام بھی پوچھا لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ میں نہیں بتاسکتا، بس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام سفینہ ہی رکھا تھا، میں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام سفینہ کیوں رکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، ان کا سامان اس رکھا اور وہ گٹھڑی میرے اوپر لاد دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اسے اٹھا لو کہ تم نے سفینہ (کشتی) ہی ہو اس دن اگر مجھ پر ایک دو نہیں، سات اونٹوں کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا تو مجھے کچھ بوجھ محسوس نہ ہوتا الاّ یہ کہ وہ مجھ پر زیادتی کرتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21928]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو یاد رکھو! اس کی بائیں آنکھ کانی ہوگی اور اس کی دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہوگی، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، اس کے پاس جنت اور جہنم کی تمثیلی دو وادیاں ہوں گے، اگر میں چاہوں تو ان دو نبیوں اور ان کے آباؤ اجداد کا نام بھی بتاسکتا ہوں، ان میں سے ایک اس کی دائیں جانب ہوگا اور دوسرا بائیں جانب اور یہ ایک آزمائش ہوگی۔
پھر دجال کہے گا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ کیا میں زندگی اور موت نہیں دیتا؟ ان میں سے ایک فرشتہ کہے گا تو جھوٹ بولتا ہے لیکن یہ بات اس کے ساتھی فرشتے کے علاوہ کوئی انسان نہ سن سکے گا، اس کا ساتھی اس سے کہے گا کہ تم نے سچ کہا، اس کی آواز لوگ سن لیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ وہ دجال کی تصدیق کر رہا ہے حالانکہ یہ ایک آزمائش ہوگی، پھر وہ روانہ ہوگا یہاں تک کہ مدینہ منورہ جا پہنچے گا لیکن اسے وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملے گی اور وہ کہے گا کہ یہ اس آدمی کا شہر ہے پھر وہ وہاں سے چل کر شام پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ اسے " افیق " نامی گھاٹی کے قریب ہلاک کروا دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21929]
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة، تفرد به حشرج بن نباتة ، عن ابن جمهان، وقد يقع لهما فى أحاديثهما غرائب ومناكير
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لئے ایک مد پانی رکھتے تھے اور غسل جنابت کے لئے ایک صاع پانی رکھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21930]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 326، وهذا إسناد ضعيف من أجل على بن عاصم، وقد توبع
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع پانی سے غسل اور ایک مد پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21931]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے جب کوئی آدمی تھک جاتا تو وہ اپنی تلوار، ڈھال اور نیزہ مجھے پکڑا دیتا، اس طرح میں نے بہت ساری چیزیں اٹھا لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تو تم سفینہ (کشتی) کا کام دے رہے ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21932]
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک آدمی مہمان بن کر آیا انہوں نے اس کے لئے کھانا تیار کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیتے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دروازے کے کو اڑوں کو پکڑا تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں ایک پردہ لٹک رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے ہی واپس چلے گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کے پیچھے جائیے اور واپس جانے کی وجہ پوچھئے حضرت علی رضی اللہ عنہ پیچھے پیچھے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ واپس کیوں آگئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یا کسی نبی کے لئے ایسے گھر میں داخل ہونا " جو آراستہ و منقش ہو " مناسب نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21933]