عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر میں تھے کہ وہ بیمار ہوگئے جب انہیں اپنے مرض سے افاقہ ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد حضرت علی بصرہ میں تشریف لائے اور ان کے گھر بھی آئے اور گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا والد صاحب نے انہیں جواب دیا حضرت علی نے ان سے پوچھا ابومسلم! آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں حضرت علی نے فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد نہیں کرتے انہوں نے کہا کیوں نہیں بشرطیکہ آپ اس چیز پر راضی ہوجائیں جو میں آپ کو دوں گا حضرت علی نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا لڑکی میری تلوار لاؤ میں نے نیام سمیت ان کی تلوار نکالی اور ان کی گود میں رکھ دی انہوں اس کا کچھ حصہ سے نیام سے باہر نکلا پھر سر اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونماہونے لگے تو میں لکڑی کی تلواربنا لوں یہ میری تلوار حاضر ہے اگر آپ چاہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلنے کو تیارہوں حضرت علی نے فرمایا فی الحال ہمیں آپ کی یا آپ کی تلوار کی فوری ضرورت نہیں ہے پھر وہ کمرے کے دروازے سے باہر تشریف لے گئے اور دوبارہ اس حوالے سے نہیں آئے۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْبَصْرِيِّينَ/حدیث: 20670]
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ان کے والد کے پاس آئے اور فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونما ہونے لگے تو میں اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی تلوار بنا لوں اس وقت فتنے رونما ہورہے ہیں اس لئے میں نے اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی بنالی ہے پھر مرض الوفات میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ انہیں کفن تو دیں لیکن قمیص نہ پہنائیں راوی کہتے ہیں کہ ہم انہیں قمیص پہنا دیں صبح ہوئی تو وہ کپڑے ٹانگنے والی لکڑی پر پڑی ہوئی تھی۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْبَصْرِيِّينَ/حدیث: 20671]