حضرت اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ثقیف کے وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم بنی مالک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قبہ میں ٹھہرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شب عشاء کے بعد ہمارے پاس آتے اور ہم سے گفتگو فرماتے رہتے اور زیادہ تر ہمیں قریش کے اپنے ساتھ رویہ کے متعلق سناتے اور فرماتے ہم اور وہ برابر نہ تھے کیونکہ ہم کمزور اور ظاہر طور پر دباؤ میں تھے جب ہم مدینہ آئے تو جنگ کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا کبھی ہم ان سے ڈول نکالتے (اور فتح حاصل کرلیتے . اور کبھی وہ ہم سے ڈول نکالتے (اور فتح پاتے) ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ معمول سے ذرا تاخیر سے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج تاخیر سے تشریف لائے فرمایا میرا تلاوت قرآن کا معمول کچھ رہ گیا تھا میں نے پورا ہونے سے قبل نکلنا پسند نہ کیا حضرت اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم قرآن (کی تلاوت کے لئے) کیسے حصے کرتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ تین (سورتیں فاتحہ کے بعدبقرہ، آل عمران اور نساء) اور پانچ (سورتیں مائدہ سے براءۃ کے آخرتک) اور سات (سورتیں یونس سے نحل تک) اور نو (سورتیں بنی اسرائیل سے فرقان تک) اور گیارہ (سورتیں شعراء سے یٰسین تک) اور تیرہ (سورتیں والصافات سے حجرات تک) اور آخری حزب مفصل کا یعنی سورت ق سے آخرتک۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 19021]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن عبدالرحمن عثمان بن عبدالله فيه لين