حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سات افراد کا ساتواں تھا، اس وقت ہمارے پاس سوائے ببول کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17574]
ایک مرتبہ حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے شروع میں اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور اما بعد کہہ کر فرمایا کہ دنیا اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ وہ ختم ہونے والی ہے اور وہ پیٹھ پھیر کر جانے والی ہے اور اس کی بقاء اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی کسی برتن کی تری ہوتی ہے جو پینے والا چھوڑ دیتا ہے اور تم ایک ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو جسے کبھی زوال نہیں آئے گا، لہذا بہترین اعمال کے ساتھ اس گھر کی طرف منتقل ہوجاؤ، کیونکہ ہمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ایک پھتر جہنم کے دہانے سے لڑھکایا جائے گا تو وہ ستر سال تک گرتا جائے گا لیکن اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا، بخدا! اسے ضرور بھرا جائے گا، کیا تمہیں اس بات سے تعجب ہوتا ہے؟ اور ہمیں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ جنت کے دونوں کناروں کے درمیان چالیس سال کی مسافت واقع ہے اور اس پر بھی ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ وہ رش کی وجہ سے بھری ہوئی ہوگی اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے ساتواں فرد تھا، اس وقت ہمارے پاس سوائے درختوں کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے۔ ایک دن مجھے ایک چادر ملی، میں نے اسے اپنے اور سعد کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کرلیا، چنانچہ وہ نصف چادر انہوں نے تہبند کے طور پر باندھ لی اور نصف میں نے باندھ لی اور اب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا گورنر ہے، میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو بڑا عظیم سمجھوں جبکہ میں اللہ کے نزدیک حقیر ہوں اور نبوت کا جو سلسلہ تھا، وہ اب ختم ہوگیا ہے اور اس کا انجام بادشاہت پر ہوگا اور عنقریب تم ہمارے بعد کے حکمرانوں کو آزماؤ گے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17575]