سعید بن ابوراشد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص میں میری ملاقات تنوخی سے ہوئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہرقل کے ایلچی بن کر آئے تھے، وہ میرے پڑوسی تھے، انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے اور سٹھیا جانے کی عمر تک پہنچ چکے تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہرقل کے خط اور ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے بارے کچھ بتاتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تشریف لائے ہوئے تھے، آپ نے سیدنا دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس بھیجا، جب ہرقل کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خط پہنچا تو اس نے رومی پادریوں اور سرداروں کو جمع کیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ آدمی میرے پاس آیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے، مجھے جو خط بھیجا گیا ہے، اس میں مجھے تین میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، یا تو میں ان کے دین کی پیروی کر لوں یا انہیں زمین پر مال کی صورت میں ٹیکس دوں اور زمین ہمارے پاس ہی رہے، یا پھر ان سے جنگ کر وں، اللہ کی قسم! آپ لوگ جو کتابیں پڑھتے ہو، ان کی روشنی میں آپ جانتے ہو کہ وہ میرے ان قدموں کے نیچے کی جگہ بھی حاصل کر لیں گے، تو کیوں نہ ہم ان کے دین کی پیروی کر لیں یا اپنی زمین کا مال کی صورت میں ٹیکس دے دیا کر یں۔ یہ سن کر ان سب کے نرخروں سے ایک جیسی آواز نکلنے لگی، حتی کہ انہوں نے اپنی ٹوپیاں اتاردیں اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں عیسائیت چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہیں یا یہ کہ ہم کسی دیہاتی کے جو حجاز سے آیا ہے، غلام بن جائیں، جب ہرقل نے دیکھا کہ اگر یہ لوگ اس کے پاس سے اسی حال میں چلے گئے تو وہ پورے روم میں اس کے خلاف فساد برپا کر دیں گے تو اس نے فورا پینترا بدل کر کہا کہ میں نے تو یہ بات محض اس لئے کہی تھی کہ اپنے دین پر تمہارا جماؤ اور مضبوطی دیکھ سکوں۔ پھر اس نے عرب تجیب کے ایک آدمی کو جو نصار عرب پر امیر مقرر تھا، بلایا اور کہا کہ میرے پاس ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ جو حافظہ کا قوی ہواور عربی زبان جانتاہو، تاکہ میں اسے اس شخص کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجوں، وہ مجھے بلا لایا، ہرقل نے اپنا خط میرے حوالے کر دیا اور کہنے لگا کہ میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ، اگر اس کی ساری باتیں تم یاد نہ رکھ سکو تو کم از کم تین چیزیں ضرور یاد رکھ لینا، یہ دیکھنا کہ وہ میری طرف بھیجے ہوئے اپنے خط کا کوئی ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھتے ہیں تورات کا ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ اور ان کی پشت پر دیکھنا، تمہیں کوئی عجیب چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ میں ہرقل کا خط لے کر روانہ ہواور تبوک پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان پانی کے قریبی علاقے میں اپنی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں سے حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ انہوں نے مجھے اشارہ سے بتادیا، میں چلتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، انہیں خط پکڑایا جسے انہوں نے اپنی گود میں رکھ لی اور اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے کہا کہ میں ایک تنوخی آدمی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں ملت حنیفیہ اسلام جو تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے میں کوئی رغبت محسوس ہو تی ہے؟ میں نے کہا میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور ایک قوم کے دین پر ہوں، میں جب تک ان کے پاس لوٹ نہ جاؤں اس دین سے برگشتہ نہیں ہو سکتا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر یہ آیت پڑھنے لگے کہ، جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے، ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اے تنوخی بھائی! میں نے ایک خط کسری کی طرف لکھا تھا، اس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا، میں نے نجاشی کی طرف بھی خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو توڑ پھوڑ دے گا، میں نے تمہارے بادشاہ کو بھی خط لکھا لیکن اس نے اسے محفوظ کر لیا، لہذا جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی، لوگوں پر اس کا رعب ودبدبہ باقی رہے گا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ تین میں سے پہلی بات ہے جس کی مجھے بادشاہ نے وصیت کی تھی، چنانچہ میں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات لکھ لی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خط اپنی بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دے دیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، بہرحال! ہمارے بادشاہ کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دیتے ہیں جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے، [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16693]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد