الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ
343. بَقِیَّة حَدِیثِ ابنِ الاَكوَعِ فِی المضَافِ مِنَ الاَصلِ
حدیث نمبر: 16529
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُكَ اللَّهُ" ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ أَوْ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ مَزْكُومٌ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ کی خدمت اقدس میں ایک مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی کو چھنک آئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یرحمک اللہ کہہ کر اسے جواب دیا، اس نے دوبارہ چھینک ماری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو زکام ہے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16529]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 16530
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، فَقَالَ:" كُلْ بِيَمِينِكَ" قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، قَالَ:" لَا اسْتَطَعْتَ"، قَالَ: فَمَا وَصَلَتْ إِلَى فِيهِ بَعْدُ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی طاقت نہیں رکھتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے اس کی توفیق نہ ہو، چنانچہ اس کے بعد اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہیں جاسکا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16530]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2021
حدیث نمبر: 16531
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ عَيْنٌ لِلْمُشْرِكِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا طَعِمَ، انْسَلَّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيَّ الرَّجُلَ، اقْتُلُوا"، قَالَ: فَابْتَدَرَ الْقَوْمُ، قَالَ: وَكَانَ أَبِي يَسْبِقُ الْفَرَسَ شَدًّا، قَالَ: فَسَبَقَهُمْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذَ بِزِمَامِ نَاقَتِهِ أَوْ بِخِطَامِهَا، قَالَ: ثُمَّ قَتَلَهُ، قَالَ: فَنَفَّلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَبَهُ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی (مہمان ظاہر کر کے) کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کر سکے، میں نے اس کا پیچھا کر کے اس کی سواری کو بٹھایا اور اس کی گردن اڑادی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سازوسامان مجھے بطور انعام کے دے دیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16531]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 16532
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الْمَغْرِبَ سَاعَةَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ إِذَا غَابَ حَاجِبُهَا".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد اس وقت پڑھتے جب اس کا کنارہ غروب ہو جاتا تھا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16532]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 636
حدیث نمبر: 16533
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ :" عَلَى أَيِّ شَيْءٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ؟، قَالَ: بَايَعْنَاهُ عَلَى الْمَوْتِ".
یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حدیبیہ کے دن آپ نے کس چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر بیعت کی تھی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16533]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2960، م: 1860
حدیث نمبر: 16534
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَا:" خَرَجَ عَلَيْنَا مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَى أِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَذِنَ لَكُمْ فَاسْتَمْتِعُوا يَعْنِي مُتْعَةَ النِّسَاءِ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جہاد میں شریک تھے، اسی دوران ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا اور کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم عورتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16534]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5117، م: 1405
حدیث نمبر: 16535
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ زُهَيْرٍ ، وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ:" كُنْتُ أُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ، وَلَا بَعْدَ الصُّبْحِ قَطُّ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتا رہا ہوں میں نے آپ کو نماز عصر یا فجر کے بعد کبھی بھی نوافل پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16535]
حكم دارالسلام: رجاله ثقات
حدیث نمبر: 16536
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، وَغَطَفَانَ فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ شَيْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِيرِ، فَقَيَّدَ بِهِ الْبَعِيرَ، ثُمَّ جَاءَ يَمْشِي حَتَّى قَعَدَ مَعَنَا يَتَغَدَّى، قَالَ: فَنَظَرَ فِي الْقَوْمِ، فَإِذَا ظَهْرُهُمْ فِيهِ قِلَّةٌ، وَأَكْثَرُهُمْ مُشَاةٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى الْقَوْمِ، خَرَجَ يَعْدُو، قَالَ: فَأَتَى بَعِيرَهُ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَخَرَجَ يُرْكُضُهُ، وَهُوَ طَلِيعَةٌ لِلْكُفَّارِ، فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ وَرْقَاءَ، قَالَ إِيَاسٌ: قَالَ أَبِي: فَاتَّبَعْتُهُ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُهُ فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَهُ: أخْ، فَلَمَّا وَضْعَ ركبتَهُ الْجَمَلُ إِلَى الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَضَرَبْتُ رَأْسَهُ، فَنَدَرَ، ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ أَقُودُهَا، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ هَذَا الرَّجُلَ؟"، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ہوازن کے خلاف جہاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی مہمان ظاہر کر کے کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہوا تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کر سکے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے قبیلہ اسلم کا ایک آدمی بہترین قسم کی خاکستیری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے لگ گیا، میں بھی دوڑتا ہوا نکلا اور اسے پکڑ لیا، اونٹنی کا سر اونٹ کے سرین کے پاس تھا اور میں اونٹنی کے سرین کے پاس، میں تھوڑا سا آگے بڑھ کر اونٹ کے سرین کے قریب ہو گیا، پھر تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، میں نے اس کی سواری کو بٹھایا اور جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے اس کی گردن اڑادی، میں اس کی سواری اور اس کے سازوسامان کو لے کر ہانکتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے کہا ابن اکوع نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سازوسامان بھی اسی کا ہو گیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16536]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م:1754
حدیث نمبر: 16537
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى فَزَارَةَ، وَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنَ الْمَاءِ عَرَّسَ أَبُو بَكْرٍ، حَتَّى إِذَا صَلَّيْنَا الصُّبْحَ، أَمَرَنَا فَشَنَنَّا الْغَارَةَ، فَوَرَدْنَا الْمَاءَ، فَقَتَلَ أَبُو بَكْرٍ مَنْ قَتَلَ وَنَحْنُ مَعَهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَرَأَيْتُ عُنُقًا مِنَ النَّاسِ فِيهِمْ الذَّرَارِيُّ، فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَأَدْرَكْتُهُمْ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ قَامُوا، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ مَعَهَا ابْنَةٌ مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَجِئْتُ أَسُوقُهُنَّ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، ثُمَّ بَاتَتْ عِنْدِي، فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي، وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، وَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ، لِلَّهِ أَبُوكَ"، قَالَ: قُلْتُ: هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا أُسَرَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا فِي أَيْدِي الْمُشْرِكِينَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر کے ساتھ نکلے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو سیدنا صدیق اکبر نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کر دیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہو گیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا سیدنا صدیق اکبر کے پہ اس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی سیدنا صدیق اکبر نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا ہے، لیکن یا رسول اللہ!! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان سے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16537]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1755
حدیث نمبر: 16538
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ ابْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: بَارَزَ عَمِّي يَوْمَ خَيْبَرَ مَرْحَبًا الْيَهُودِيُّ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، فَقَالَ عَمِّي عَامِرٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ، فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ، وَذَهَبَ يَسْفُلُ لَهُ، فَرَجَعَ السَّيْفُ عَلَى سَاقِهِ، فقَطَعَ أَكْحَلَهُ، فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ، قَالَ: سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ فلَقِيتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَتَلَ نَفْسَهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَجِئْتُ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْكِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ:" مَنْ قَالَ ذَاكَ؟"، قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاكَ، بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ"، إِنَّهُ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ، جَعَلَ يَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسُوقُ الرِّكَابَ، وَهُوَ يَقُولُ: تَالَلَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا إِنَّ الَّذِينَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا؟"، قَالَ عَامِرٌ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ"، قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ يَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ، فَقَدِمَ فَاسْتُشْهِدَ، قَالَ سَلَمَةُ: ثُمَّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنِهِ، ثُمَّ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه: أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ، فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّيْفِ، وَكَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر میرے چچا نے مرحب یہو دی کو مقابلے کی دعوت دی، مرحب کہنے لگا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے، میرے چچا عامر نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بےخوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں۔ مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو سیدنا عامر کی اپنی تلوار خود انہی کو لگ گئی جس سے ان کی شہ رگ کٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں وہ شہید ہو گئے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر یم کے چند صحابہ کو دیکھا وہ کہنے لگے سیدنا عامر کا عمل ضائع ہو گیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! عامر کا عمل ضائع ہو گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا: جس نے بھی کہا ہے غلط کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے۔ جس وقت عامر، رسول اللہ کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے، انہوں نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کر دیئے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مدد نہ ہو تی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے، یہ لوگ ہم پر سرکشی کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ جب بھی کسی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور ہم (اے اللہ) تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور (اے اللہ) ہم پر سکینت نازل فرما۔ (جب یہ رجزیہ اشعار سنے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! میں عامر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب تیری مغفت فرمائے، راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب اپنے اونٹ پر تھے انہوں نے یہ سن کر بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا، پھر عامر آگے بڑھ کر شہید ہو گئے۔ پھر آپ نے مجھے سیدنا علی کی طرف بھیجا۔ آپ نے فرمایا: میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہواور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت رکھتے ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی کو پکڑ کر (سہارا دے کر) آپ کی خدمت میں لے آیا کیونکہ علی کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ نے سیدنا علی کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہو گئیں۔ آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا: اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ پھر سیدنا علی نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرف جو جنگلوں میں ڈرانی صورت ہوتا ہے میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ، اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ پھر سیدنا علی نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہو گیا اور خیبر سیدنا علی کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16538]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2975، م: 1807
حدیث نمبر: 16539
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أُبْدَِّيَهُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا كَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَتَلَ رَاعِيَهَا، وَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ، فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اقْعُدْ عَلَى هَذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْهُ بِطَلْحَةَ، وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أُغِيرَ عَلَى سَرْحِهِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلَى تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْهِي مِنْ قِبَلِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِي سَيْفِي وَنَبْلِي، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَعْقِرُ بِهِمْ، وَذَلِكَ حِينَ يَكْثُرُ الشَّجَرُ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَهُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَمَيْتُ، فَلَا يُقْبِلُ عَلَيَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِهِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَنَا أَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، فَأَرْمِيهِ، وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَيَقَعُ سَهْمِي فِي الرَّجُلِ حَتَّى انْتَظَمْتُ كَتِفَهُ، فَقُلْتُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَإِذَا كُنْتُ فِي الشَّجَرِ أَحْرَقْتُهُمْ بِالنَّبْلِ، فَإِذَا تَضَايَقَتْ الثَّنَايَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَرَدَيْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَمَا زَالَ ذَاكَ شَأْنِي وَشَأْنَهُمْ أَتَّبَعُهُمْ فَأَرْتَجِزُ، حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي، فَاسْتَنْقَذْتُهُ مِنْ أَيْدِيهِمْ، ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ رُمْحًا، وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، وَلَا يُلْقُونَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ حِجَارَةً، وَجَمَعْتُ عَلَى طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا امْتَدَّ الضُّحَى، أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ مَدَدًا لَهُمْ، وَهُمْ فِي ثَنِيَّةٍ ضَيِّقَةٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَأَنَا فَوْقَهُمْ، فَقَالَ عُيَيْنَةُ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟، قَالُوا: لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ، مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتَّى الْآنَ، وَأَخَذَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا، وَجَعَلَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، قَالَ عُيَيْنَةُ: لَوْلَا أَنَّ هَذَا يَرَى أَنَّ وَرَاءَهُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَكَكُمْ، لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ، فَقَامَ إِلَيْهِ نفرٌ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ، فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمُ الصَّوْتَ، قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِي؟، قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟، قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَطْلُبُنِي مِنْكُمْ رَجُلٌ فَيُدْرِكُنِي، وَلَا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: إِنْ أَظُنُّ، قَالَ: فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِي ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُهُمُ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ، وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى أَثَرِ أَبِي قَتَادَةَ الْمِقْدَادُ الْكِنْدِيُّ، فَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِينَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ، فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ ِعِنَانِ فَرَسِهِ، فَقُلْتُ: يَا أَخْرَمُ، ائْذَنْ الْقَوْمَ يَعْنِي احْذَرْهُمْ فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَقْطَعُوكَ، فَاتَّئِدْ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ: يَا سَلَمَةُ، إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ، فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَه، ُفَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعُقرَ بِأَبِي قَتَادَةَ، وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّي خَرَجْتُ أَعْدُو فِي أَثَرِ الْقَوْمِ حَتَّى مَا أَرَى مِنْ غُبَارِ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، وَيُعْرِضُونَ قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ، فَأَرَادُوا أَنْ يَشْرَبُوا مِنْهُ، فَأَبْصَرُونِي أَعْدُو وَرَاءَهُمْ، فَعَطَفُوا عَنْهُ، وَاشْتَدُّوا فِي الثَّنِيَّةِ ثَنِيَّةِ ذِي نثرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا، فَأَرْمِيهِ، فَقُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: يَا ثُكْلَ أُمِّ، أَكْوَعُ بَكْرَةً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَيْ عَدُوَّ نَفْسِهِ، وَكَانَ الَّذِي رَمَيْتُهُ بَكْرَةً، فَأَتْبَعْتُهُ سَهْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِهِ سَهْمَانِ، وَيَخْلُفُونَ فَرَسَيْنِ، فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي حَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمْسِ مِئَةٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ، فَهُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلِّنِي فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِكَ مِئَةً فَآخُذَ عَلَى الْكُفَّارِ عَشْوَةً، فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ، قَالَ:" أَكُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ يَا سَلَمَةُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ فِي ضُوءِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُمْ يُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَى فُلَانٍ الْغَطَفَانِيِّ فَنَحَرَ لَهُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا يَكْشِطُونَ جِلْدَهَا رَأَوْا غَبَرَةً، فَتَرَكُوهَا وَخَرَجُوا هُرّاَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَخَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ"، فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِيعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِي وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهَا قَرِيبًا مِنْ ضَحْوَةٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَا يُسْبَقُ جَعَلَ يُنَادِي هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ؟ أَلَا رَجُلٌ يُسَابِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ؟ فَأَعَادَ ذَلِكَ مِرَارًا، وَأَنَا وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْدِفِي، قُلْتُ لَهُ: أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا، وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا؟، قَالَ: لَا، إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، خَلِّنِي فَلَأُسَابِقَ الرَّجُلَ، قَالَ:" إِنْ شِئْتَ"، قُلْتُ: أَذْهَبْ إِلَيْكَ، فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَةِ، ثُمَّ إِنِّي رَبَطْتُ عَلَيْهَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، يَعْنِي اسْتَبْقَيْتُ نَفْسِي، ثُمَّ إِنِّي عَدَوْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ، فَأَصُكَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِيَدَيَّ، قُلْتُ سَبَقْتُكَ وَاللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: فَضَحِكَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ، حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہے تھے، میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رباح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے، میں سیدنا طلحۃ بن عبیداللہ کا گھوڑا لے کر نکلا، ارادہ یہ تھا کہ اسے اونٹ کے ساتھ شامل کر دوں گا، لیکن منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کیا اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر ان اونٹوں کو بھگا کر لے گیا، سیدنا سلمہ کہتے ہیں میں نے کہا اے رباح! یہ گھوڑا پکڑ اور اسے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا، ' یا صباحاہ ' پھر (اس کے بعد) میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا: میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آ کر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو جاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کر دیئے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا اور وہ رسول اللہ کی سواری کا ہوایسا نہیں ہوا کہ جسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہو نے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے، سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آ گئے اور عیینہ بن بدر فزاری بھی ان کے پاس آگیا، سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری کہنے لگا کہ یہ کون آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے، اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فزاری کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے ماردیں، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہیں) ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں، تو میں نے ان سے کہا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا تم کون ہو؟ میں نے جواب میں کہا: میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے سیدنا محمد کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں ماردو اور تم میں سے کوئی مجھے مار نہیں سکتا، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے، (پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور) میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا نہیں تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے سیدنا ابوقتاد تھے اور ان کے پیچھے سیدنا مقداد بن اسود کندی تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی (یہ دیکھتے ہی) وہ لٹیرے بھاگ پڑے، میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نہ آجائیں، اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ! اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہواور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو، میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا، اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رسول اللہ کے شہسوار سیدنا ابوقتادہ آ گئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو سیدنا ابوقتادہ نے عبدالرحمن فزاری کو بھی برچھی مار کر قتل کر دیا میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گردو غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے سورج غروب ہو نے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا، اس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اس گھاٹی سے پانی پئیں کیو کہ وہ پیاسے تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ انہو [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16539]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1807
حدیث نمبر: 16540
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ أَبُو يَحْيَى قَاضِي الْيَمَامَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا حَضَرَتَ الصَّلَاةُ وَالْعَشَاءُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب نماز عشاء اور ات کا کھانا جمع ہو جائیں تو پہلے کھانا کھالیا کر و۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16540]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أيوب بن عتبة
حدیث نمبر: 16541
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَلَّ عَلَيْنَا السَّيْفَ فَلَيْسَ مِنَّا".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمارے اوپر تلوار سونتے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16541]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 99، أيوب بن عتبة ضعيف لكنه توبع
حدیث نمبر: 16542
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، أَنَّهُ كَانَ يَتَحَرَّى مَوْضِعَ الْمُصْحَفِ، وَذَكَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَحَرَّى ذَلِكَ الْمَكَانَ، وَكَانَ بَيْنَ الْمِنْبَرِ وَالْقِبْلَةِ مَمَرُّ شَاةٍ".
یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ میں سیدنا سلمہ بن اکوع کے ساتھ مسجد میں آتا تھا، وہ اس ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے جو مصحف کے قریب تھا اور فرماتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام کے ساتھ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت منبر اور قبلہ کے درمیان سے بکری گزر سکتی تھی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16542]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 497، م: 509
حدیث نمبر: 16543
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ:" غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، فَذَكَرَ الْحُدَيْبِيَةَ، وَيَوْمَ حُنَيْنٍ، وَيَوْمَ الْقَرَدِ، وَيَوْمَ خَيْبَرَ"، قَالَ يَزِيدُ: وَنَسِيتُ بَقِيَّتَهُنَّ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ہے، پھر انہوں نے حدیبیہ، ذات قرد اور غزوہ خیبر کا تذکر ہ کیا، راوی کہتے ہیں کہ بقیہ غزوات کے نام میں بھول گیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16543]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6473، م: 1815
حدیث نمبر: 16544
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ: جَاءَنِي عَمِّي عَامِرٌ، فَقَالَ: أَعْطِنِي سِلَاحَكَ، قَالَ: فَأَعْطَيْتُهُ، قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنِي سِلَاحَكَ، قَالَ:" أَيْنَ سِلَاحُكَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَيْتُهُ عَمِّي عَامِرًا، قَالَ:" مَا أَجِدُ شَبَهَكَ إِلَّا الَّذِي قَالَ: هَبْ لِي أَخًا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي"، قَالَ: فَأَعْطَانِي قَوْسَهُ وَمَجَانَّهُ، وَثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ مِنْ كِنَانَتِهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے پاس میرے چچا عامر آئے اور کہنے لگے کہ اپنا ہتھیار مجھے دے دو، میں نے انہیں وہ دے دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے ہتھیار مہیا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا اپنا ہتھیار کہا گیا؟ میں نے عرض کیا: کہ میں نے اپنے چچا عامر کو دے دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ مجھے تمہارے متعلق کوئی تشبیہ نہیں یاد آرہی کہ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا کہ مجھے اپنا بھائی دے دو جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان، ڈھال اور اپنے ترکش سے تین تیر نکال کر مرحمت فرما دیئے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16544]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1807
حدیث نمبر: 16545
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، أَنَّهُ" اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَدْوِ، فَأَذِنَ لَهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگل میں رہنے کی اجازت مانگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16545]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7087، م: 1862
حدیث نمبر: 16546
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ، ثُمَّ نَرْجِعُ وَمَا لِلْحِيطَانِ فَيْءٌ يُسْتَظَلُّ بِهِ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے پھر ہم لوگ اس وقت واپس آتے تھے کہ جب ہمیں باغات میں اتنا بھی سایہ نہ ملتا کہ کوئی شخص وہاں سایہ حاصل کر سکتا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16546]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4168، م: 860
حدیث نمبر: 16547
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، وَيُونُسُ ، وَهَذَا حَدِيثُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ يُونُسُ ابْنُ أَبِي رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، وَكَانَ إِذَا نَزَلَ يَنْزِلُ عَلَى أَبِي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَكُونُ فِي الصَّيْدِ وَلَيْسَ عَلَيَّ إِلَّا قَمِيصٌ، أَفَأُصَلِّي فِيهِ؟، قَالَ:" زُرُّهُ وَلَوْ لَمْ تَجِدْ إِلَّا شَوْكَةً".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بٹن لگا لیا کر و، اگرچہ کانٹا ہی ملے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16547]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 16548
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رَاشِدٍ الْيَمَامِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ الْأَسْلَمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ دُعَاءً إِلَّا اسْتَفْتَحَهُ بِسُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى الْعَلِيِّ الْوَهَّابِ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَ سَلَمَةُ : بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَنْ بَايَعَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَمَعَهُ قَوْمٌ، فَقَالَ:" بَايِعْ يَا سَلَمَةُ"، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَ:" وَأَيْضًا"، فَبَايَعْتُهُ الثَّانِيَةَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی دعاء کا آغاز کرتے ہوئے سنا تو اس کے آغاز میں یہی کہتے ہوئے سنا " سبحان ربی الاعلی العلی الوہاب۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی دوبارہ گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! بیعت کر و، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! میں بیعت کر چکا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ سہی، چنانچہ میں نے دوبارہ بیعت کر لی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16548]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عمر بن راشد
حدیث نمبر: 16549
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ عَدَلْتُ إِلَى ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَلَمَّا خَفَّ النَّاسُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ أَلَا تُبَايِعُ؟"، قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَأَيْضًا"، قَالَ: فَبَايَعْتُهُ الثَّانِيَةَ، قَالَ يَزِيدُ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُبَايِعُونَ يَوْمَئِذٍ؟، قَالَ: عَلَى الْمَوْتِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ چھٹ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن اکوع! تم کیوں نہیں بیعت کر رہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بیعت کر چکا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ سہی راوی نے پوچھا کہ اس دن آپ نے کس چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16549]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2960، م:1860
حدیث نمبر: 16550
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد اس وقت پڑھتے جب اس کا کنارہ غروب ہو جاتا تھا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16550]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 561، م: 636
حدیث نمبر: 16551
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَقَالَ غَيْرُ يُونُسَ بْنِ رَزِينٍ، أَنَّهُ نَزَلَ الرَّبَذَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ يُرِيدُونَ الْحَجَّ، قِيلَ لَهُمْ: هَاهُنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَاهُ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، ثُمَّ سَأَلْنَاهُ، فَقَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي هَذِهِ، وَأَخْرَجَ لَنَا كَفَّهُ كَفًّا ضَخْمَةً، قَالَ: فَقُمْنَا إِلَيْهِ، فَقَبَّلْنَا كَفَّيْهِ جَمِيعًا".
عبدالرحمن بن رزین کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی حج کے ارادے سے جا رہے تھے، راستے میں مقام ربذہ میں پڑاؤ کیا، کسی نے بتایا کہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا سلمہ بن اکوع بھی رہتے ہیں، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں سلام کیا، پھر ہم نے ان سے کچھ پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے اس ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی ہے، یہ کہہ کر انہوں نے اپنی بھری ہوئی ہتھیلی باہر نکالی ہم نے کھڑے ہو کر ان کی دونوں ہتھیلیوں کو بوسہ دیا۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16551]
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 16552
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ عَامَ أَوْطَاسٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، ثُمَّ نَهَى عَنْهَا".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اوطاس کے سال صرف تین دن کے لئے متعہ کی رخصت دی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16552]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1405
حدیث نمبر: 16553
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَلَمَةَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَهُ بُرَيْدَةُ بْنُ الْحَصِيبِ، فَقَالَ: ارْتَدَدْتَ عَنْ هِجْرَتِكَ يَا سَلَمَةُ؟، فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنِّي فِي إِذْنٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" ابْدُوا يَا أَسْلَمُ، فَتَنَسَّمُوا الرِّيَاحَ، وَاسْكُنُوا الشِّعَابَ"، فَقَالُوا: إِنَّا نَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يَضُرَّنَا ذَلِكَ فِي هِجْرَتِنَا، قَالَ:" أَنْتُمْ مُهَاجِرُونَ حَيْثُ كُنْتُمْ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ منورہ آئے، تو سیدنا بریدہ بن حصیب سے ملاقات ہوئی وہ کہنے لگے اے سلمہ! کیا تم اپنی ہجرت سے پیٹھ پھیر چکے ہو؟ (کہ صحراء میں رہنا شروع کر دیا ہے) انہوں نے بتایا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت ہے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے قبیلہ اسلم! دیہات میں رہواور صاف ستھری آب وہوا پاؤ اور گھاٹیوں میں رہو، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں اس سے ہماری ہجرت کو نقصان نہ پہنچے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جہاں بھی رہو گے مہاجر ہی رہو گے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16553]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن إياس لم يوجد ترجمة، وله متابع إلا أنه مجهول الحال
حدیث نمبر: 16554
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَنْتُمْ أَهْلُ بَدْوِنَا، وَنَحْنُ أَهْلُ حَضَرِكُمْ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ہمارا دیہات اور ہم تمہارا شہر ہیں۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16554]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن