جعفر بن امیہ ضمری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبیداللہ بن عدی کے ساتھ شام کے سفر میں نکلا جب ہم شہر حمص میں پہنچے تو عبیداللہ نے مجھ سے کہا اگر تمہاری مرضی ہو تو چلو وحشی حبشی کے پاس چل کر سیدنا حمزہ کی شہادت کے متعلق پوچھتے ہیں میں نے کہا چلو سیدنا وحشی حمص میں ہی رہتے تھے ہم نے لوگوں سے اس کا پتہ پوچھا: تو ایک شخص نے کہا وہ سامنے اپنے محل کے سایہ میں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے پانی سے بھری ہوئی بڑی مشک۔ ہم ان کے پاس گئے اور وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا سیدنا وحشی نے سلام کا جواب دیا عبیداللہ اس وقت چادر میں اس طرح لپٹے ہوئے تھے کہ سوائے آنکھوں اور پاؤں کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا عبیداللہ نے سیدنا وحشی سے پوچھا کہ آپ مجھ کو پہچانتے ہو وحشی نے غور سے دیکھا اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم میں اور تو جانتا نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ام القتال سے نکاح کیا تھا عدی اس عورت سے ایک لڑکا مکہ میں پیدا ہوا میں نے اس لڑکے کے لئے دودھ پلانے والی تلاش کی اور لڑکے کو مال سمیت لے جا کر ان کو دے دیا اب مجھے تمہارے پاؤں دیکھ کر اس لڑکے کا خیال ہوا یہ سن کر عبیداللہ نے اپنا منہ کھول دیا اور کہا سیدنا حمزہ کا واقعہ بیان کیجیے۔ وحشی نے کہا ہاں قصہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں طعیمہ بن عدی کو حمزہ نے قتل کر دیا تھا یہ دیکھ کر میرے آقا جبیر بن مطعم نے کہا اگر تو میرے چچا کے عوض حمزہ کو قتل کر دے گا تو میری طرف سے تو آزاد ہے چنانچہ جب لوگ قریش عینین والے سال نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ لڑائی کے لئے چلا صفیں درست ہو نے کے بعد سباع میدان میں نکلا اور آواز دی کیا کوئی مقابلہ پر آسکتا ہے حمزہ بن عبدالمطلب اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور کہنے لگے کہ اے سباع عورتوں کے ختنہ کرنے والی کے بیٹے کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے یہ کہہ کر سیدنا حمزہ نے اس پر حملہ کر دیا اور سباع مارا گیا
اس دوران میں ایک پتھر کی آڑ میں سیدنا حمزہ کے مارنے کے لئے چھپ گیا تھا جب آپ میرے قریب آئے تو میں نے برچھی ماری جو خصیوں کے مقام پر لگ کر سرین کے پیچھے پار ہو گئی بس یہ برچھی مارنے کا قصہ تھا جس سے سیدنا حمزہ شہید ہو گئے پھر جب سب لوگ لوٹ کر آئے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹ آیا اور مکہ میں رہنے لگا۔ اور جب مکہ میں اسلام پھیل گیا تو میں مکہ سے نکل کر چلا گیا طائف والوں نے رسول اللہ کی خدمت میں کچھ قاصد بھیجے اور مجھ سے کہا کہ حضور قاصدوں سے کچھ تعرض نہیں کرتے تم ان کے ساتھ چلے جاؤ میں قاصدوں کے ہمراہ چل دیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ تو وحشی ہے میں نے عرض کیا: جی ہاں فرمایا: کیا تو نے حمزہ کو شہید کیا تھا میں نے عرض کیا: حضور کو جو خبر پہنچی ہے واقعہ تو یہ ہے کہ فرمایا: کیا تجھ سے ہو سکتا ہے کہ اپنا چہرہ مجھے نہ دکھائے میں وہاں سے چلا آیا۔ حضور کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو میں نے کہا میں مسیلمہ کذاب کا مقابلہ کر وں گا تاکہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو سیدنا حمزہ کی شہادت کا شاید قرض ادا ہو جائے چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ نکلا اس درمیان میں مسیلمہ کا جو واقعہ ہو نا تھا وہ ہوا یعنی مسلمانوں کو فتح ہوئی مسیلمہ مارا گیا سیدنا وحشی کہتے ہیں کہ میں نے مسیلمہ کو دیوار کے شگاف میں کھڑا ہوا دیکھا اس وقت مسیلمہ کا رنگ کچھ خاکی معلوم ہوتا تھا اور بالکل پراگندہ تھے میں نے سیدنا حمزہ والی برچھی اس کے ماری جو دونوں شانوں کے بیچ میں لگی اور پار ہو گئی اتنے میں ایک اور انصاری آدمی حملہ آوار ہوا اور اس نے مسیلمہ کے سر پر تلوار ماری اور اسے قتل کر دیا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 16077]
سیدنا وحشی بن حرب سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: کہ ہم لوگ کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیراب نہیں ہو پاتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو کھانا اکٹھا کھایا کر و اور اللہ کا نام لے کر کھایا کر و اس میں برکت پیدا ہو جائے گی۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 16078]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، والوليد بن مسلم يدلس تدليس التسوية ، وقد عنعن، ووحشي بن حرب، وأبوه مجهولان