سیدنا سلمہ بن سلامہ جو کہ اصحاب بدر میں تھے سے مروی ہے کہ بنو عبدالاشہل میں ہمارا ایک یہو دی پڑوسی تھا ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا ہی عرصہ قبل اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس آیا اور بنو عبدالاشہل کی مجلس کے پاس پہنچ کر رک گیا میں اس وقت نوعمر تھا میں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اور میں اپنے گھر کے صحن میں لیٹا ہوا تھا وہ یہو دی دوبارہ زندہ ہوتے قیامت، حساب کتاب، میزان عمل اور جنت و جہنم کا تذکر ہ کرنے لگا یہ بات وہ ان مشرک اور بت پرست لوگوں سے کہہ رہا تھا جن کی رائے میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہو نی تھی اس لئے وہ اس سے کہنے لگے اے فلاں تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور انہیں جنت و جہنم نامی جگہ منتقل کیا جائے گا جہاں ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا تنور خوب دہکایا جائے گا اور مجھے اس میں داخل کر کے اسے اوپر سے بند کر دیا جائے گا اور اس کے بدلے کل کو جہنم کی آگ سے نجات دیدی جائے گی اور وہ لوگ کہنے لگے کہ اس کی علامت کیا ہے اس نے جواب دیا کہ اس کی علامت ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو ان علاقوں سے مبعوث ہو گا یہ کہہ کر اس نے مکہ مکر مہ یمن کی طرف اشارہ کیا انہوں نے پوچھا کہ وہ کب ظاہر ہو گا اس یہو دی نے مجھے دیکھا کیونکہ میں ان میں سب سے زیادہ چھوٹا تھا اور کہنے لگا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو انہیں ضرور پالے گا۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ ابھی دن رات کا چکر ختم نہیں ہوا تھا کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرما دیا وہ یہو دی بھی اس وقت تک ہمارے درمیان زندہ تھا ہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے لیکن وہ سرکشی اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑا رہا ہم نے اس سے کہا کہ فلاں تجھ پر افسوس ہے کیا تو وہی نہیں ہے جس نے اس پیغمبر کے حوالے سے اتنی لمبی تقریر کی تھی اس نے کہا کیوں نہیں لیکن میں ان پر ایمان نہیں لاؤں گا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15841]