علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہ کو، ایک دوسری روایت میں مقداد کے بجائے ابومرثد رضی اللہ عنہ کا نام ہے، کسی کام پر روانہ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم چلتے جانا حتیٰ کہ تم روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ، وہاں ایک عورت ہو گی اس کے پاس ایک خط ہو گا تم وہ اس سے لے لینا۔ “ ہم روانہ ہوئے، ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے رہے حتیٰ کہ ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے، اور وہاں ہمیں وہ عورت مل گئی۔ ہم نے کہا: خط نکالو، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں، ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں لکھا ہوا تھا، حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے چند مشرکین کے نام، انہوں نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض امور کے متعلق انہیں خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حاطب یہ کیا (ماجرا) ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے متعلق جلدی نہ فرمانا، میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میں قریش کا حلیف ہوں، میں ان کے خاندان میں سے نہیں ہوں، اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی تو (ان سے) قرابت ہے جس کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے اموال اور اہل و عیال کی حفاظت کر رہے ہیں، میں نے ان سے نسبی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پسند کیا کہ میں ان سے کوئی احسان کروں، جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کفر کی وجہ سے کیا ہے نہ اپنے دین سے ارتداد کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر کو پسند کر کے کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تم سے سچی بات کی ہے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت فرمائیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے غزوۂ بدر میں شرکت کی ہے، اور تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اہل بدر کے احوال پہلے سے جان لیے تھے، اس لیے اس نے فرمایا: ”جو چاہو سو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”میں تمہیں معاف کر چکا۔ “ تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6225]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6259 والرواية الثانية: 4274) و مسلم (161/ 2494)»