قیس بن عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس کے چہرے پر خشوع کے آثار تھے۔ حاضرین نے کہا: یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے، چنانچہ اس نے اختصار کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر وہ چلا گیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گیا، تو میں نے کہا: جس وقت آپ مسجد میں تشریف لائے تھے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے۔ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسی بات کہے جسے وہ جانتا نہیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ایسے کیوں ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں خواب دیکھا تو میں نے اسے آپ سے بیان کیا: میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں، انہوں نے اس کی وسعت اور اس کی شادابی کا ذکر کیا، اس کے وسط میں لوہے کا ستون ہے، اس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اس کا اوپر والا حصہ آسمان میں ہے، اس کی چوٹی پر ایک حلقہ (کڑا) ہے، مجھے کہا گیا: اس پر چڑھو، میں نے کہا: میں استطاعت نہیں رکھتا، میرے پاس ایک خادم آیا اس نے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے تو میں اوپر چڑھ گیا، حتیٰ کہ میں نے اس کی چوٹی پر پہنچ کر حلقے (کڑے) کو پکڑ لیا، مجھے کہا گیا: مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو، میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میں بیدار ہو گیا، میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ باغ اسلام ہے، اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے تم تا دم مرگ اسلام پر رہو گے۔ “ اور وہ آدمی عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6210]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3813) و مسلم (148/ 2484)»