عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا گیا تو وہ رو پڑے اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے عمل ان کے ایام میں سے ایک یوم اور ان کی راتوں میں سے ایک رات کی مثل ہو جائیں، رہی ان کی رات، تو وہ رات جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا تھا، جب وہ دونوں وہاں تک پہنچے تو ابوبکر نے عرض کیا، اللہ کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوں گے حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہو جاؤں، تا کہ اگر اس میں کوئی چیز ہو تو اس کا نقصان مجھے پہنچے آپ اس سے محفوظ رہیں، وہ اس میں داخل ہوئے، اسے صاف کیا، اور انہوں نے اس کی ایک جانب سوراخ دیکھے، انہوں نے اپنا ازار پھاڑا اور اس سے سوراخوں کو بند کیا، مگر دو سوراخ باقی رہ گئے اور انہوں نے ان پر اپنے پاؤں رکھ دیے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، تشریف لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے آئے اور اپنا سر مبارک ان کی گود میں رکھ کر سو گئے، سوراخ سے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا گیا، لیکن انہوں نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ بیدار نہ ہو جائیں حرکت نہ کی، ان کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر گرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! کیا ہوا؟“ انہوں نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر فدا ہوں مجھے ڈس لیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعاب لگایا اور تکلیف جاتی رہی، اور بعد ازاں اس زہر کا اثر ان پر دوبارہ شروع ہو گیا اور یہی ان کی وفات کا سبب بنا، رہا ان کا دن تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی کچھ عرب مرتد ہو گئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوۃ نہیں دیں گے، انہوں نے فرمایا: اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے کہا: رسول اللہ کے خلیفہ! لوگوں کو ملائیں اور نرمی کریں، انہوں نے مجھے فرمایا: کیا جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں بزدل ہو گئے ہو، وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، دین مکمل ہو چکا، تو کیا میرے جیتے ہوئے دین کم (ناقص) ہو جائے گا؟ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ رزین۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6034]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه رزين (لم أجده) [والبيھقي في دلائل النبوة (2/ 477) ] ٭ فيه فرات بن السائب عن ميمون بن مھران، و الفرات ھذا ضعيف جدًا متروک .»