جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میرے والد فوت ہوئے تو وہ مقروض تھے، میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیش کش کی کہ وہ اس کے قرض کے برابر کھجوریں لے لیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، آپ جانتے ہی ہیں کہ میرے والد غزوۂ احد میں شہید کر دیے گئے تھے، اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قرض خواہ آپ کو (میرے ہاں) دیکھ لیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جاؤ ہر قسم کی کھجور الگ الگ جمع کرو۔ “ میں نے ایسے ہی کیا، پھر آپ کو دعوت دی، جب قرض خواہوں نے آپ کی طرف دیکھا تو مجھ پر سخت ناراض ہوئے، جب آپ نے ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ناپ کر ادا فرماتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرے والد کا سارا قرض ادا کر دیا اور میں خوش تھا کہ اللہ نے میرے والد کا قرض ادا فرما دیا، اور (میرا خیال تھا کہ) میں اپنی بہنوں کے لیے ایک کھجور بھی لے کر نہ جا سکوں گا، لیکن اللہ نے سارے ڈھیر بچا دیے حتیٰ کہ میں اس ڈھیر کی طرف، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، دیکھ رہا ہوں کہ وہ اسی طرح ہے کہ جس طرح اس سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5906]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (2781)»