ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب فتنے برپا ہوں گے، سن لو! پھر بڑے فتنے ہوں گے، سن لو! پھر ایسے عظیم فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا، چلنے والے سے بہتر ہو گا، ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، سن لو! جب یہ واقع ہو جائیں تو جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ مشغول ہو جائے، جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں کے ساتھ مشغول ہو جائے اور جس کی زمین ہو تو وہ اپنی زمین کے ساتھ مشغول ہو جائے۔ “ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیں کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ ہی زمین (تو وہ کیا کرے؟)، فرمایا: ”وہ اپنی تلوار کا قصد کرے اور اسے پتھر پر مار کر کند کر دے (اس کی تیزی ختم کر دے)، پھر اگر استطاعت ہو (وہاں سے) بھاگ نکلے (کہ فتنے اسے اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں) تا کہ وہ بچ سکے، اے اللہ! کیا میں نے (پیغام الٰہی) پہنچا دیا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا، تو ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں اگر مجھے مجبور کر دیا جائے حتیٰ کہ مجھے دو صفوں (جماعتوں، گروہوں) میں سے کسی ایک کے ساتھ لے جایا جائے تو کوئی اپنی تلوار سے مجھے مارے یا کوئی تیر آئے اور وہ مجھے قتل کر دے (تو قاتل و مقتول کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (قاتل) اپنے اور تمہارے گناہ کا (بوجھ) لے کر واپس آئے گا اور وہ جہنمی ہو گا۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5385]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (13/ 2887)»