سلیمان بن بُریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لشکر یا کسی دستے پر کوئی امیر مقرر فرماتے تو آپ خاص طور پر اسے اللہ کا خوف اختیار کرنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ خیر و بھلائی کرنے کا حکم فرماتے، پھر فرماتے: ”اللہ کی راہ میں اللہ کے نام سے جہاد کرو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے قتال کرو جہاد کرو، خیانت، عہد شکنی اور مثلہ مت کرو، بچوں کو قتل نہ کرو، اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں سے ملاقات کرو تو انہیں تین چیزوں کی طرف دعوت دو اور وہ ان میں سے جو قبول کر لیں وہی تم ان سے قبول کر لو اور اِن سے (لڑائی کرنے سے) ہاتھ روک لو، پھر انہیں اسلام کی طرف دعوت دو، اگر تمہاری بات مان لیں، تو اِن سے قبول کر لو، اور اِن سے (لڑائی کرنے سے) ہاتھ روک لو، پھر انہیں ان کے گھر سے دار المہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت پیش کرو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو پھر ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہوں گے اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین کی ہوں گی، اگر وہ وہاں سے منتقل ہونے سے انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ ان کا معاملہ دیہاتوں میں رہائش پذیر مسلمانوں جیسا ہو گا، اللہ کے احکام ان پر ویسے ہی جاری کیے جائیں گے جیسے دیگر مومنوں پر جاری ہوں گے، اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے تو تب ان کے لیے مال غنیمت اور مالِ فے میں سے حصہ ہو گا ورنہ نہیں، اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کرو، اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو ان کی طرف سے قبول کرو اور ان سے لڑائی مت کرو، اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے قتال کرو، جب تم قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور اگر وہ تم سے یہ چاہیں کہ تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کی امان دو تو انہیں اللہ اور اس کے نبی کی امان مت دینا، بلکہ انہیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی امان دینا، کیونکہ اگر تم نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی امان کو توڑا تو یہ اس سے سہل تر ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی امان کو توڑو۔ اور اگر تم قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے مطالبہ کریں کہ تم انہیں اللہ کے حکم پر نکالو تو تم انہیں اللہ کے حکم پر نہ نکالو، بلکہ تم انہیں اپنے حکم پر نکالو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کر سکو گے یا نہیں۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3929]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (1731/3)»