ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کے لیے تشریف لاتے تو آپ سب سے پہلے نماز پڑھتے، جب آپ نماز پڑھ لیتے تو آپ کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، جبکہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تھے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا تذکرہ فرماتے، یا اس کے علاوہ کوئی اور ضرورت ہوتی تو آپ اس کے متعلق انہیں حکم فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو۔ “ اور خواتین سب سے زیادہ صدقہ کیا کرتی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے جاتے، یہ معمول ایسے ہی رہا حتیٰ کہ مروان بن حکم کا دور حکومت آیا تو میں مروان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز عید کے لیے روانہ ہوا حتیٰ کہ ہم عید گاہ پہنچ گئے، وہاں دیکھا کہ کثیر بن صلت ؒ نے گارے اور اینٹوں سے ایک منبر تیار کر رکھا تھا، مروان مجھ سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا گویا وہ مجھے منبر کی طرف لے جانا چاہتا تھا جبکہ میں اسے نماز کی طرف لانا چاہتا تھا، جب میں نے اس کا یہ عزم دیکھا تو میں نے کہا: نماز سے ابتدا کرنا کہاں چلا گیا؟ اس نے کہا: نہیں، ابوسعید! جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہ وہ طریقہ متروک ہو چکا، میں نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے علم کے مطابق تم خیرو بھلائی پر نہیں ہو، انہوں نے تین مرتبہ ایسے ہی فرمایا پھر وہ منبر سے دور چلے گئے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الصلاة/حدیث: 1452]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (889/9)»