سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیہات سے کچھ لوگ آئے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں بائیں جانب سے پوچھ رہے تھے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یوں کرنے میں کوئی حرج ہے؟ کیا یوں کرنے میں کوئی حرج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمام تنگیاں معاف کر دیں، مگر جو شخص کسی مسلمان مرد سے ظلم کے ساتھ قرض لے اس میں اس پر حرج ہو گا اور وہ ہلاک ہو گا۔“ کہنے لگے: کیا ہم فلاں چیز سے علاج کروا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندو! علاج کراؤ، اللہ تعالیٰ نے جو بیماری نازل کی تو اس کی شفاء بھی نازل فرمائی، مگر ایک بیماری یعنی بڑھاپا۔“ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے اس میں سے سب سے بہتر چیز کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اچھے اخلاق ہیں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الطِّبِّ/حدیث: 1090]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2955، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 478، 486، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 415، 7523، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3855، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2038، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2672، 3436، قال الشيخ الألباني: صحيح، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19617، 21215، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18744، والحميدي فى «مسنده» برقم: 845، والطبراني فى «الكبير» برقم: 463، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 367، 6380، والطبراني فى «الصغير» برقم: 559، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15197 قال المنذری: رواته محتج بهم في الصحيح، تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي: (3 / 145)»