ہارون بن معروف اور محمد بن عباد نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ دونوں سے ملتے جلتے ہیں جبکہ سیاق ہارون کا ہے۔دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے یعقوب بن مجاہد ابو حزرہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: میں اور میرے والد طلب علم کے لیے انصار کے اس قبیلے کی ہلاکت سے پہلے اس میں گئے، سب سے پہلے شخصد جن سے ہماری ملاقات ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو یسر رضی اللہ عنہ تھے، ان کےساتھ ان کایک غلام بھی تھا جس کے پاس صحائف (دستاویزات) کا ایک مجموعہ تھا، حضرت ابو یسر رضی اللہ عنہ کے بدن پر ایک دھاری دار چادر اور معافر کا بنا ہوا ایک کپرا تھا۔اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک دھاری دار چادر اور ایک معافری کپڑا تھا۔میرے والد نے ان سے کہا: چچا!میں غصے کی بنا پر آپ کے چہرے پر رنگ کی تبدیلی دیکھ رہا ہوں، انھوں نے کہا: ہاں، فلاں بن فلاں، جس کاتعلق بنو حرام سے ہے، سلام کیا اور میں نے پوچھا: کیا وہ ہے؟گھر والوں نے کہا: نہیں ہے پھر اچانک اس کا ایک کمر عمر لڑکا میرے سامنے گھر سے نکلا، میں نے اس سے پوچھا: تیر ا باپ کہاں ہے؟اس نے کہا: انھوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری والدہ کے چھپر کھٹ میں گھس گئے ہیں۔میں نےکہا: نکل کرمیری طرف آجاؤ، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں ہو۔وہ باہر نکل آیا میں نے پوچھا: اس بات کا باعث کیابنا کہ تم مجھ سے چھپ گئے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا، اللہ کی قسم!میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے وعدہ کروں اور آپ کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کروں، جبکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں تنگ دست تھا، انھوں نے کہا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں نے (دوبارہ) کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!میں نے (پھر) کہا: اللہ کی قسم!اس نے کہا: اللہ کی قسم!کہا: پھر انھوں نے اپنا صحیفہ (جس پر قرض کی تحریر لکھی ہوئی تھی) نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس کومٹا دیا (پھر مقروض سے) کہا: اگر تمھیں ادائیگی کے لیے مال مل جائے تو میرا قرض لوٹا دینا اور نہیں تو تم بری الذمہ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے (دیکھا) اور (یہ کہتے ہوئے) انھوں نے اپنی دو انگلیاں اپنی دو آنکھوں پر رکھیں، اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا۔اور انھوں نے اپنے دل والی جگہ پر اشارہ کیا۔جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہےتھے: "جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض ختم کردیا اللہ تعالیٰ اپنے سائے سے اس پر سایہ کرے گا۔"
عبادہ رحمۃ اللہ علیہ بن ولید رحمۃ اللہ علیہ بن صامت بیان کرتے ہیں، میں اور میرے والد(ولید) طلب علم کے لیے انصار کے اس قبیلے کی ہلاکت سے پہلے اس میں گئے،سب سے پہلے جس شخص سے ہماری ملاقات ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،ان کےساتھ ان کایک غلام بھی تھا جس کے پاس صحائف(دستاویزات) کا ایک مجموعہ تھا،حضرت ابو یسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدن پر ایک دھاری دار چادر اور معافر کا بنا ہوا ایک کپرا تھا۔اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک دھاری دار چادر اور ایک معافری کپڑا تھا۔میرے والد نے ان سے کہا:چچا!میں غصے کی بنا پر آپ کے چہرے پر رنگ کی تبدیلی دیکھ رہا ہوں،انھوں نے کہا:ہاں،فلاں بن فلاں،جس کاتعلق بنو حرام سے ہے،سلام کیا اور میں نے پوچھا:کیا وہ ہے؟گھر والوں نے کہا:نہیں ہے پھر اچانک اس کا ایک کمر عمر لڑکا میرے سامنے گھر سے نکلا،میں نے اس سے پوچھا:تیر ا باپ کہاں ہے؟اس نے کہا:انھوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری والدہ کے چھپر کھٹ میں گھس گئے ہیں۔میں نےکہا:نکل کرمیری طرف آجاؤ،مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہاں ہو۔وہ باہر نکل آیا میں نے پوچھا:اس بات کا باعث کیابنا کہ تم مجھ سے چھپ گئے؟اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا،اللہ کی قسم!میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے وعدہ کروں اور آپ کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کروں،جبکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں تنگ دست تھا،انھوں نے کہا کہ میں نے کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں نے(دوبارہ) کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!میں نے(پھر)کہا:اللہ کی قسم!اس نے کہا:اللہ کی قسم!کہا:پھر انھوں نے اپنا صحیفہ(جس پر قرض کی تحریر لکھی ہوئی تھی)نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس کومٹا دیا(پھر مقروض سے)کہا:اگر تمھیں ادائیگی کے لیے مال مل جائے تو میرا قرض لوٹا دینا اور نہیں تو تم بری الذمہ ہو،میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے(دیکھا) اور (یہ کہتے ہوئے) انھوں نے اپنی دو انگلیاں اپنی دو آنکھوں پر رکھیں،اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا۔اور انھوں نے اپنے دل والی جگہ پر اشارہ کیا۔جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہےتھے:"جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض ختم کردیا اللہ تعالیٰ اپنے سائے سے اس پر سایہ کرے گا۔"
(عبادہ بن ولید نے) کہا: میں نے ان سے کہا: چچاجان!اگر آپ اپنے غلام کی دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے اپنا معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے اس کا معافری کپڑا لے لیتے اور اسے اپنی دھاری دار چادر دے دیتے تو آپ کے جسم پر ایک جوڑا ہوتا اور اس کے جسم پر بھی ایک جوڑا ہوتا۔انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اے اللہ! اس کو برکت عطا فرما۔بھتیجے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں کی بصارت (نے دیکھا) اور میرے دو کانوں نے سنا اور۔دل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرے دل نے اسے یاد رکھا، جبکہ آپ فرمارہے تھے۔"ان (غلاموں) کو اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور اسی میں سے پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔"اگرمیں نے اسے دنیا کی نعمتوں میں سے (اس کا حصہ) دے دیاہے تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جاتا۔
عبادہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،میں نے ان سےکہا،اے چچاجان!اگر آپ اپنے غلام کی دھاری دار چادر لے لیتے اور اسے اپنا معافری کپڑا دے دیتے یا اس سے اس کا معافری کپڑا لے لیتے اور اسے اپنی دھاری دار چادر دے دیتے تو آپ کے جسم پر ایک جوڑا ہوتا اور اس کے جسم پر بھی ایک جوڑا ہوتا۔انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:اے اللہ! اس کو برکت عطا فرما۔بھتیجے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری آنکھوں کی بصارت(نے دیکھا) اور میرے دو کانوں نے سنا اور۔دل کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میرے دل نے اسے یاد رکھا،جبکہ آپ فرمارہے تھے۔"ان(غلاموں) کو اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور اسی میں سے پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔"اگرمیں نے اسے دنیا کی نعمتوں میں سے(اس کا حصہ) دے دیاہے تو یہ میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ قیامت کے روز میری نیکیاں لے جاتا۔
پھر ہم (آگے) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں حاضر ہوئے وہ ایک کپڑے میں اسے دونوں پلوؤں کو مخالف سمتوں میں کندھوں کے اوپر سے گزار کر باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا گیا یہاں تک کہ ان کے اور قبلے کے درمیان جاکر بیٹھ گیا۔ (جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے ان سے کہا: آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی چادر آپ کے پہلو میں پڑی ہوئی ہے؟ انھوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے میرے سینے میں مارا انھوں (عبادہ) نے اپنی انگلیاں الگ کیں اور انھیں کمان کی طرح موڑا (اور کہنے لگے) میں (یہی) چاہتا تھا کہ تم جیسا کوئی نا سمجھ میرے پاس آئے اور دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں، پھر وہ (بھی) اس طرح کر لیا کرے۔ (پھر کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے آپ کے دست مبارک میں ابن طاب (کی کھجور) کی ایک شاخ تھی آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف (والی دیوارپر) جماہوا بلغم لگا دیکھا۔آپ نے کھجور کی شاخ سے اس کو کھرچ کر صاف کیا پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا: ”تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے (اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟کہا: تو ہم سب ڈر گئے۔آپ نے پھر فرمایا: ”تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"کہا: ہم پر خوف طاری ہوگیا آپ نے پھر سے فرمایا: "تم میں سے کسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے کسی کو بھی (یہ بات پسند) نہیں آپ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے لہٰذا اسے سامنے کی طرف ہر گز تھوکنا نہیں چاہیے۔نہ دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔اگر جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح (صاف) کرے۔"پھرآپ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرےحصے پر تہ لگائی پھر فرمایا: "مجھے خوشبو لاکردو۔"قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ (خوشبو) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔
پھرہم باپ بیٹا چلے حتی کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں پہنچ گئے وہ ایک کپڑے میں اسے دونوں پلوؤں کو مخالف سمتوں میں کندھوں کے اوپر سے گزار کر باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا گیا یہاں تک کہ ان کے اور قبلے کے درمیان جاکر بیٹھ گیا۔(جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے ان سے کہا: آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کی چادر آپ کے پہلو میں پڑی ہوئی ہے؟ انھوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے میرے سینے میں مارا انھوں (عبادہ) نے اپنی انگلیاں الگ کیں اور انھیں کمان کی طرح موڑا(اور کہنے لگے) میں (یہی) چاہتا تھا کہ تم جیسا کوئی نا سمجھ میرے پاس آئے اور دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں،پھر وہ(بھی) اس طرح کر لیا کرے۔(پھر کہا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے آپ کے دست مبارک میں ابن طاب(کی کھجور) کی ایک شاخ تھی آپ نے مسجد کے قبلے کی طرف (والی دیوارپر)جماہوا بلغم لگا دیکھا۔آپ نے کھجور کی شاخ سے اس کو کھرچ کر صاف کیا پھر ہماری طرف رخ کر کے فرمایا:'تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے (اس کی طرف نظر تک نہ کرے؟کہا: تو ہم سب ڈر گئے۔آپ نے پھر فرمایا:'تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"کہا: ہم پر خوف طاری ہوگیا آپ نے پھر سے فرمایا:"تم میں سے کسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمائے؟"ہم نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سے کسی کو بھی (یہ بات پسند) نہیں آپ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سامنے کی طرف ہوتا ہے لہٰذا اسے سامنے کی طرف ہر گز تھوکنا نہیں چاہیے۔نہ دائیں طرف ہی تھوکنا چاہیے اپنی بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔اگر جلدی نکلنے والی ہو تو اپنے کپڑے کے ساتھ اس طرح (صاف) کرے۔"پھرآپ نے کپڑے کے ایک حصے کی دوسرےحصے پر تہ لگائی پھر فرمایا:"مجھے خوشبو لاکردو۔"قبیلےکا ایک نوجوان اٹھ کر اپنے گھر والوں کی طرف بھاگا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ(خوشبو) لی اسے چھڑی کے سرے پرلگایا اور جس جگہ سوکھا بلغم لگا ہواتھا اس پرمل دی۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:یہاں سے تم نے اپنی مسجدوں میں خوشبو لگانی شروع کی۔
(جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بواط کی جنگ میں تھے۔آپ (قبیلہ جحینہ کے سردار) مجدی بن عمروجہنی کو ڈھونڈ رہے تھے پانی ڈھونے والے ایک اونٹ پر ہم پانچ چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتےتھے۔انصار میں سے ایک آدمی کی اپنے اونٹ پر (بیٹھنے کی) باری آئی تو اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پرسوار ہوگیا۔پھر اس کو اٹھا یا تو اس (اونٹ) نے اس (کے حکم) پر اٹھنے میں کسی حد تک دیر کی تو اس نے کہا: کھڑا ہو، تم پر اللہ لعنت کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے؟اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں۔ آپ نے فرمایا: "اس سے اتر جاؤ جس پر لعنت کی گئی ہو وہ ہمارے ساتھ نہ چلے اپنے آپ کو بددعا نہ دو نہ اپنی اولاد کو بددعا دو نہ اپنے مال مویشی کو بددعا دو اللہ کی طرف سے (مقرر کردہ قبولیت کی) گھڑی کی موافقت نہ کرو جس میں (جو) کچھ مانگا جاتا ہے وہ تمھیں عطا کردیا جاتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بواط کی جنگ میں تھے۔آپ مجدی بن عمروجہنی کو ڈھونڈ رہے تھے پانی ڈھونے والے ایک اونٹ پر ہم پانچ چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتےتھے۔انصار میں سے ایک آدمی کی اپنے اونٹ پر(بیٹھنے کی)باری آئی تو اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پرسوار ہوگیا۔پھر اس کو اٹھا یا تو اس (اونٹ)نے اس(کے حکم)پر اٹھنے میں کسی حد تک دیر کی تو اس نے کہا: کھڑا ہو،تم پر اللہ لعنت کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ اپنے اونٹ پر لعنت کرنے والا کون ہے؟اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں۔ آپ نے فرمایا:"اس سے اتر جاؤ جس پر لعنت کی گئی ہو وہ ہمارے ساتھ نہ چلے اپنے آپ کو بددعا نہ دو نہ اپنی اولاد کو بددعا دو نہ اپنے مال مویشی کو بددعا دو اللہ کی طرف سے گھڑی کی موافقت نہ کرو جس میں(جو) کچھ مانگا جاتا ہے وہ تمھیں عطا کردیا جاتا ہے۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس) کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر) وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر) وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس (چادر) کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا (گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا) پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا: "آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: "اے جابر رضی اللہ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب کسی حد تک شام ہوگئی اور ہم عرب کے پانیوں میں سے کسی پانی کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص ہے جو ہم سے پہلے جاکر حوض (کےکنارے کو مضبوط کرنے کے لیے اس)کی لپائی کرے گا اور خود بھی پانی پیے گا اور ہمیں بھی پلائے گا؟"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہو گیا اور عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا۔؟تو حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ہم کنویں کے پاس گئے اور ہم نے (کنویں سے نکال کر)وضو کیا پھر میں کھڑا ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی جگہ سے (پانی لے کر)وضو کیا۔جباربن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم پر ایک چادرتھی۔میں (ایک طرف) گیا کہ اس (چادر) کے دونوں کناروں کومخالف سمتوں میں (کندھوں پر) ڈالوں تو وہ مجھے پوری نہ آئی۔اس کی جھاگریں تھیں میں نے اس(چادر)کو الٹ کر اس کے کنارے بدلے پھر اس پر اپنی گردن سے زور ڈالا(گردن جھکا کر اسے اس کے نیچے دبایا)پھر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ نے میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھمایا یہاں تک کہ مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا پھر جبار صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے وضو کیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور ہمیں دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلسل سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا پھر مجھے سمجھ آئی تو آپ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا:"آپ کا مقصد تھا کہ اپنی کمر باندھ لو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا:"اے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!"میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب کپڑا کھلا ہو تو اس کے کناروں کو مخالفت سمتوں میں میں لےجاؤ اور اگر تنگ ہو تو اس کو کمرکے اوپر باندھ لو۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک مہم پرگئے۔ہم میں سے ہر شخص کی خوراک روز کی ایک کھجور تھی وہ اس کھجور کو چوستا رہتا اور پھر اس کو اپنے کپڑے میں لپیٹ لیتا ہم اپنی کمانوں سے درختوں کے پتےجھاڑتے تھے اور کھاتے تھے حتیٰ کہ ہماری باچھوں میں زخم ہو ئے۔قسم کھاتا ہوں کہ ایک دن ہم میں سے ایک غلطی سے اس (ایک کھجور) سے محروم رہ گیا ہم اسے (سہارادے کر) اٹھاتے ہوئے لے کر (تقسیم کرنے والے کے پاس) گئے۔اور اس کے حق میں گواہی دی کہ اسے وہ ایک کھجور) نہیں دی گئی۔وہ اسے دی گئی تو اس نے خود کھڑے ہو کر لی۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے اور روزانہ ہم میں سے ہر آدمی کی خوراک ایک کھجورتھی،جسے وہ چوستا،پھر اسے اپنے کپڑے میں باندھ لیتا(تاکہ پھر چوس سکے)اورہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور کھالیتے،حتیٰ کہ ہماری باچھیں چھل گئیں،میں قسم کھاتا ہوں،ایک دن ہم میں سے ایک آدمی کو چوک کرنہ دی گئی،تو ہم اس کو اٹھا کرلے گئے اور ہم نے گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں دی گئی،تو اسے کھجور دی گئی اور اس نے کھڑے ہوکر کھالی۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک مہم کے لیے) روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم کشادہ وادی میں جا اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے میں (چمڑے کا بناہوا) پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر دوڑائی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے۔وادی کے کنارے پردودرخت نظر آئے آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑ ا اور فرمایا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑا اور کہا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ (اسے چلاتے ہوئے) دونوں کے درمیان کے آدھے فاصلے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا (کراکٹھا کر) دیا آپ نے فرمایا: "دونوں اللہ کے حکم سے میرے آگے مل جاؤ۔تو وہ دونوں ساتھ گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کر دیا) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ میرے قریب ہونے کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے (مزید) دور (جانے پر مجبور) نہ ہو جائیں اور محمد بن عباد نے (اپنی روایت میں) کہا: آپ کو دورجانے کی زحمت کرنی پڑے میں (ایک جگہ) بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں۔ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑاہو گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا۔ابو اسماعیل (حاتم بن اسماعیل) نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔پھر آپ آگے تشریف لائے جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا: " جابر رضی اللہ عنہ!کیا تم میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟میں نے عرض کی جی ہاں۔آپ نے فرمایا: "دونوں درختوں کی طرف جاؤ اور دونوں میں سے ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹ لاؤ یہاں تک کہ آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ بائیں طرف۔" حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اٹھا ایک پتھر اٹھا یا اسے توڑا اور اسے گھسایا جب وہ میرے (کام کے) کے لئے تیز ہوگیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹی، پھر ان کو گھسیٹتا ہوا آیا، یہاں تک کہ آکر اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور ایک اپنی بائیں طرف۔پھر میں آپ کے ساتھ جاملا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (جو آپ نے فرمایا تھا) میں نے کردیا ہے وہ کس لیے تھا؟فرمایا: "میں و قبروں کے پاس سے گزرا ان کو عذاب دیاجارہاتھا۔میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے اس وقت تک کے لیے تخفیف کردی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں۔"
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھلی وادی میں چلے،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے اور میں بھی پانی کابرتن لے کر آپ کے پیچھے ہولیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر دوڑائی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے۔وادی کے کنارے پردودرخت نظر آئے آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑ ا اور فرمایا:"اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ٹہنیوں میں سے ایک کو پکڑا اور کہا: "اللہ کے حکم سے میرے مطیع ہو جاؤ۔"تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ (اسے چلاتے ہوئے) دونوں کے درمیان کے آدھے فاصلے پر پہنچے تو آپ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا (کراکٹھا کر)دیا آپ نے فرمایا:"دونوں اللہ کے حکم سے میرے آگے مل جاؤ۔تو وہ دونوں ساتھ گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پردہ مہیا کر دیا)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ میرے قریب ہونے کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے (مزید) دور (جانے پر مجبور)نہ ہو جائیں اور محمد بن عباد نے (اپنی روایت میں)کہا: آپ کو دورجانے کی زحمت کرنی پڑے میں (ایک جگہ) بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں۔ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑاہو گیا ہے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا۔ابو اسماعیل (حاتم بن اسماعیل)نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔پھر آپ آگے تشریف لائے جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا:" جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!کیا تم میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟میں نے عرض کی جی ہاں۔آپ نے فرمایا:"دونوں درختوں کی طرف جاؤ اور دونوں میں سے ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹ لاؤ یہاں تک کہ آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ بائیں طرف۔"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں اٹھا ایک پتھر اٹھا یا اسے توڑا اور اسے گھسایا جب وہ میرے(کام کے)کے لئے تیز ہوگیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا ہر ایک سے ایک(ایک) شاخ کاٹی،پھر ان کو گھسیٹتا ہوا آیا،یہاں تک کہ آکر اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور ایک اپنی بائیں طرف۔پھر میں آپ کے ساتھ جاملا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(جو آپ نے فرمایا تھا)میں نے کردیا ہے وہ کس لیے تھا؟فرمایا:"میں قبروں کے پاس سے گزرا ان کو عذاب دیاجارہاتھا۔میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے اس وقت تک کے لیے تخفیف کردی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں۔"
(حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جابر رضی اللہ عنہ!وضو کے پانی کے لیے آوازدو۔"تو میں نے (ہرجگہ پکار کر) کہا: کیاوضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں ایک قطرہ (پانی) نہیں ملا۔انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پُرانے مشکیزے میں پانی ڈال کراسے کھجور کی ٹہنی (سے بنی ہوئی) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کر تا تھا۔ (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ نے مجھ سے فرمایا"فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پُرانے مشکیزے میں کچھ ہے؟"کہا: میں کیا، اس کے اندر دیکھاتو مجھے اس (مشکیزے) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اگر میں اسے (دوسرے برتن میں) نکالتا تو اس کا خشک حصہ اسے پی لیتا۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس (مشکیزے) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سواکچھ نہیں ملا۔اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔"میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیاکہا اور اس (مشکیزے) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے، پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا: "جابر رضی اللہ عنہ!پانی (پلانے) کا بڑابرتن منگواؤ۔"میں نے آواز دی: سواروں کابڑا برتن (ٹب) لاؤ۔اسے اٹھا کر میرے پاس لا یاگیا تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا، اسے پھیلایا اور اپنی انگیاں الگ الگ کیں پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا: "جابر!میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو!"میں نے اسے آپ (کے ہاتھ) پر انڈیلا اور کہا: بسم اللہ۔میں نے پانی کو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کےدرمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا، پھر وہ بڑا برتن (پانی کے) جوش سے) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا۔یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جابر!جس جس کو پانی کی ضرورت ہے اسے آواز دو۔"کہا: لوگ آئے اور پانی لیا، یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہوگئی، کہا: میں نے اعلان کیا کوئی باقی ہے جسے (پانی کی) ضرورت ہو؟"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ (اسی طرح) بھرا ہوا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،پھر ہم لشکر کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!وضو کے پانی کے لیے آوازدو۔"تو میں نے(ہرجگہ پکار کر) کہا:کیاوضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کیا وضو کا پانی نہیں ہے؟کہا:میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں ایک قطرہ(پانی) نہیں ملا۔انصار میں سے ایک آدمی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پُرانے مشکیزے میں پانی ڈال کراسے کھجور کی ٹہنی(سے بنی ہوئی) کھونٹی سے لٹکا کر ٹھنڈا کیا کر تا تھا۔(جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا:آپ نے مجھ سے فرمایا"فلاں بن فلاں انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو اس کے پُرانے مشکیزے میں کچھ ہے؟"کہا:میں کیا، اس کے اندر دیکھاتو مجھے اس(مشکیزے) کے منہ والی جگہ پر ایک قطرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اگر میں اسے(دوسرے برتن میں) نکالتا تو اس کا خشک حصہ اسے پی لیتا۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس(مشکیزے) کے منہ میں پانی کے ایک قطرے کے سواکچھ نہیں ملا۔اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی لے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔"میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔آپ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنا شروع کیا مجھے پتہ نہ چلا کہ آپ نے کیاکہا اور اس(مشکیزے) کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبانے اور حرکت دینے لگے،پھر آپ نے مجھے وہ دے دیا تو فرمایا:"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!پانی(پلانے) کا بڑابرتن منگواؤ۔"میں نے آواز دی:سواروں کابڑا برتن(ٹب) لاؤ۔اسے اٹھا کر میرے پاس لا یاگیا تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پیالے میں اس طرح کیا،اسے پھیلایا اور اپنی انگیاں الگ الگ کیں پھر اسے برتن کی تہہ میں رکھا اور فرمایا:"جابر!میرے ہاتھ پر پانی انڈیل دو اور بسم اللہ پڑھو!"میں نے اسے آپ(کے ہاتھ) پر انڈیلا اور کہا:بسم اللہ۔میں نے پانی کو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کےدرمیان سے پھوٹتے ہوئے دیکھا، پھر وہ بڑا برتن(پانی کے) جوش سے) زور سے امڈنے اور گھومنے لگا۔یہاں تک کہ پورا بھر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جابر!جس جس کو پانی کی ضرورت ہے اسے آواز دو۔"کہا:لوگ آئے اور پانی لیا،یہاں تک کہ سب کی ضرورت پوری ہوگئی،کہا: میں نے اعلان کیا کوئی باقی ہے جسے(پانی کی) ضرورت ہو؟"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہ(اسی طرح) بھرا ہوا تھا۔
اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔"پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے، سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور (باہر) پھینک دیا، ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس (کے گوشت) کو پکایا، بھونا، کھایا اور یہ سیر ہوگئے (حضرت جابر نے کہا: میں اور فلاں اور فلاں، انھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے مین گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا) لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کردیا، پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو منگوایا، شخص سر جھکا ئے بغیر اس پسلی کے نیچے داخل ہوگیا۔
اور لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں کھانا دے گا۔"پھر ہم سمندر کے کنارے پہنچے،سمندر نے جوش مارا (ایک لہر سی آئی) اور اس نے ایک سمندری جانور(باہر) پھینک دیا،ہم نے سمندر کے کنارے پر آگ جلائی اور اس(کے گوشت) کو پکایا، بھونا،کھایا اور یہ سیر ہوگئے(حضرت جابر نے کہا:میں اور فلاں اور فلاں،انھوں نے پانچ آدمی گئے اس کی آنکھ کے گوشے مین گھس گئے تو کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا حتیٰ کہ ہم باہر نکل آئے اور ہم نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی (ایک جانب ایک بڑا کانٹا)لےکر اس کو کمان کی ہیت میں کھڑا کردیا،پھر قافلے میں سب سے بڑے (قد کے) آدمی کو بلایا اور قافلے میں سب سے بڑے اونٹ کو اور قافلے کے سب سے بڑے پالان کو لیا،سو وہ اس کے نیچے سرجھکائے بغیر چلاگیا۔