سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہو گیا (یعنی بہت ضعیف اور ناتواں ہو گیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تو کچھ دعا کیا کرتا تھا یا اللہ تعالیٰ سے کچھ سوال کیا کرتا تھا؟“ وہ بولا: ہاں میں یہ کہا کرتا تھا: یا اللہ! جو کچھ تو مجھ کو آخرت میں عذاب کرنے والا ہے وہ دنیا ہی میں کر لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! تجھے اتنی طاقت کہاں ہے کہ اللہ کا عذاب اٹھا سکے (دنیا میں) تو نے یہ کیوں نہیں کہا: «اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» یا اللہ! مجھ کو دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور مجھ کو بچا لے جہنم کے عذاب سے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی اللہ عزوجل سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اچھا کر دیا۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ/حدیث: 6835]
حماد نے کہا: ثابت نے ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لےگئے، وہ چوزے کی طرح (لاغر) ہو گیا تھا، اس کے بعد حمید کی حدیث کے ہم معنی ہے، مگر انہوں نے اس طرح کہا: "تم میں اللہ کا عذاب برداشت کرنے کی طاقت نہیں" انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اللہ سے دعا کی تو اس نے اس شخص کو شفا عطا فرما دی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں میں سے ایک آدمی کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور وہ چوزہ کی طرح (کمزوروناتواں)ہو چکا تھا،آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ آپ نے فرمایا:"تیرے اندر اللہ کا عذاب جھیلنے کی طاقت نہیں ہے۔"اور اس کی صحت یابی کی دعا کا ذکر نہیں ہے۔