حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: جب یہ آیت نازل ہو ئی: " جو لوگ ایمان لا ئے اور نیک اعمال کیے ان پر انھوں نے کھا یا پیا اس میں کوئی گناہ نہیں جبکہ وہ تقویٰ پر تھے اور ایمان لے آئے تھے "آیت کے آخر تک۔ (تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: " مجھے بتا یا گیا ہے کہ تم بھی انھی میں سے ہو۔"
حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کر تے ہیں،جب یہ آیت اتری،"ان لوگوں پر سے،جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے،کوئی گناہ نہیں ہے،اس سلسلہ میں جوانہوں نے کھایاپیا،جبکہ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی اور وہ ایمان لائے،(مائدہ آیت نمبر 93)آخر تک مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے بتایاگیاہے کہ تو(عبداللہ) ان میں سے ہے۔"
ابو زائدہ نے ابو اسحٰق سے، انھوں نے اسود بن یزید سے، انھوں نے حضرت موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں اور میرا بھا ئی یمن سے آئے تو کچھ عرصہ ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بکثرت آنے جانے اور آپ کے ساتھ لگے رہنے کی وجہ سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں اور میرا یمن سے آئے تو کچھ عرصہ ہم یہ سمجھتے رہے کہ ابن مسعود اور اس کی والدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد ہیں،کیونکہ وہ کثرت کے ساتھ آپ کے گھر جاتےتھے اور آپ کے ساتھ رہتے تھے۔
یو سف نے ابو اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نے اسود کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: میں اور میرا بھائی یمن سے آئے، پھر اسی کے مانند بیان کی۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں اور میرا بھائی یمن سے آئے،آگے مذکورہ بالاحدیث ہے۔
سفیان نے ابو اسحٰق سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور میں یہ سمجھتا تھا کہ حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ اہل بیت میں سے ہیں یا انھوں نے اسی طرح (کے الفا ظ میں) بیان کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور میں یہ سمجھتا تھاکہ عبداللہ(ابن مسعود) اہل بیت کا ایک فرد ہے یا اس قسم کے جو الفاظ انہوں نے بیان کیے۔
ابو اسحٰق سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے ابو حوص سے سنا، انھوں نے کہا: جس وقت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا میں نے اس وقت حضرت ابو موسیٰ اور حضرت مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں حاضری دی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے پو چھا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بعد کوئی ایسا شخص چھوڑ گئے ہیں جو ان جیسا ہو؟انھوں نے جواب دیا: جب آپ نے یہ بات کہہ دی تو حقیقت یہ ہے کہ انھیں اس وقت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضری کی اجا زت ہو تی تھی، جب ہمیں روک لیا جا تاتھا، اور وہ اس وقت بھی حاضر رہتے تھےجب ہم مو جو دنہ ہو تے تھے۔
انھوں نے کہا: جس وقت حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا میں نے اس وقت حضرت ابو موسیٰ اور حضرت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں حاضری دی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے پو چھا:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بعد کو ئی ایسا شخص چھوڑ گئے ہیں جو ان جیسا ہو؟انھوں نے جواب دیا: جب آپ نے یہ بات کہہ دی تو حقیقت یہ ہے کہ انھیں اس وقت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضری کی اجا زت ہو تی تھی،جب ہمیں روک لیا جا تاتھا،اور وہ اس وقت بھی حاضر رہتے تھےجب ہم مو جو دنہ ہو تے تھے۔
قطبہ بن عبدالعزیز نے اعمش سے، انھوں نے مالک بن حارث سے، انھوں نے ابو احوص سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کے چند ساتھیوں (شاگردوں) کے ہمراہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھے۔وہ سب ایک مصحف (قرآن مجید کا نسخہ) دیکھ رہے تھے، اس اثناءمیں حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اس شخص سے، جو (ابھی) اٹھا ہے، زیادہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کو جاننے والا کوئی اور آدمی چھوڑا ہو! حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ نے یہ کہا ہے تو (اس کی وجہ یہ ہے کہ) یہ اس وقت حاضر ر ہتے جب ہم موجود نہ ہوتے اورا نھیں (اس وقت بھی) حاضری کی اجازت دی جاتی جب ہمیں اجازت نہ ہوتی تھی۔
ابو احوص رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تھے۔وہ سب ایک مصحف(قرآن مجید کا نسخہ) دیکھ رہے تھے،اس اثناءمیں حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اس شخص سے،جو(ابھی) اٹھا ہے،زیادہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کو جاننے والا کوئی اور آدمی چھوڑا ہو!حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ اگر آپ نے یہ کہا ہے تو(اس کی وجہ یہ ہے کہ)یہ اس وقت حاضر ر ہتے جب ہم موجود نہ ہوتے اورا نھیں(اس وقت بھی) حاضری کی اجازت دی جاتی جب ہمیں اجازت نہ ہوتی تھی۔
شقیق نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے پڑھا: " ”اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا“(سورۃ: آل عمران: 161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔
شقیق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت عبداللہ نے کہا،"جوخیانت کرے گا وہ قیامت کے دن خیانت کردہ چیز کولے کر حاضر ہوگا،(آل عمران آیت نمبر 161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ ؓ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔
مسروق نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں!کتاب اللہ کی کوئی صورت نہیں مگر میں اسکے متعلق جانتاہوں کہ وہ کب نازل ہوئی، اور کتاب اللہ کی کوئی آیت نہیں مگر مجھے علم ہے کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی، اور اگر مجھے یہ معلوم ہوکہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والاہے۔اور اونٹ اس تک پہنچ سکتے ہیں تو میں (اونٹوں پر سفر کرکے) اس کے پاس جاؤں (اور قرآن کا علم حاصل کروں۔)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں!کتاب اللہ کی کوئی صورت نہیں مگر میں اسکے متعلق جانتاہوں کہ وہ کب نازل ہوئی،اور کتاب اللہ کی کوئی آیت نہیں مگر مجھے علم ہے کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی،اور اگر مجھے یہ معلوم ہوکہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والاہے۔اور اس کے پاس اونٹ پہنچ سکتے ہوں تو میں سوار ہوکراس کے پاس پہنچوں گا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے (ابو وائل) شقیق سے حدیث بیان کی، انھوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاتے تھے اور ان کے ساتھ (علمی) گفتگو کیاکرتے تھے۔اور ابن نمیر نے کہا: ان کے پاس (گفتگو کیا کرتے تھے) چنانچہ ایک دن ہم نے (ان کے سامنے) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نےکہا: تم نے مجھ سے اس شخص کا ذکر کیا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سننے کے بعد سے مسلسل اس سے محبت کرتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قرآن چار آدمیوں سے سیکھو: ابن ام عبد (حضرت ابن مسعود) رضی اللہ عنہ سے۔آپ نے ابتداء ان سے کی۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ، اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کےآزاد کردہ غلام سالم سے۔"
حضرت مسروق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے تھے اور ان کے ساتھ(علمی) گفتگو کیاکرتے تھے۔اور ابن نمیر نے کہا:ان کے پاس(گفتگو کیا کرتے تھے)چنانچہ ایک دن ہم نے(ان کے سامنے)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نےکہا:تم نے مجھ سے اس شخص کا ذکر کیا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سننے کے بعد سے مسلسل اس سے محبت کرتا ہوں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"قرآن چار آدمیوں سے سیکھو:ابن ام عبد(حضرت ابن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔آپ نے ابتداء ان سے کی۔معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابن ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،اور ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےآزاد کردہ غلام سالم سے۔"بعض راویوں نے نتحدث الیہ کی جگہ نتحدث عندہ کہا مقصد ایک ہی ہے۔
قتیبہ بن سعید، زہیر بن حرب اور عثمان بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو وائل (شقیق) سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی، مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں (اس وقت سے) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو۔ ایک ام عبد کے بیٹے (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود) سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی سے شروع کیا اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابوحذیفہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے۔ اور زہیر بن حرب نے (حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی طرف سے) جو ایک لفظ بیان نہیں کیا وہ ہے: جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔
حضرت مسروق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے تو ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بات کی،یا ان سے ایک حدیث بیان کی تو وہ کہنے لگے،یہ وہ آدمی ہے،میں ہمیشہ اس سے محبت کرتا رہوں گا،اس بات کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے،میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"قرآن مجید چارافراد سے پڑھو،ام عبد کےبیٹے سے،آغاز آپ نے ان سے کیا،ابی بن کعب سے،ابوحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولیٰ سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،زہیر نے اپنی روایت "يقوله" کا لفظ نہیں کہا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے جریر اور وکیع کی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ابو معاویہ سے ابو بکر کی روایت میں انھوں نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ابی رضی اللہ عنہ سے مقدم رکھا اورابو کریب کی روایت میں ابی (بن کعب رضی اللہ عنہ) معاذ رضی اللہ عنہ سے پہلے ہیں۔
امام صاحب یہی روایت اپنے دواساتذہ،ابوبکر بن ابی شیبہ اورابوکریب سے بیان کرتے ہیں،ابوبکرنے اپنی روایت میں ابی سے پہلے معاذ کا نام لیا ہے اور ابوکریب نے معاذ سے پہلے ابی کانام لیاہے۔
ابن ابی عدی اور محمد بن جعفر دونوں نے شعبہ سے، انھوں نے اعمش سے انھی کی سندکے ساتھ روایت کی، شعبہ سے روایت کرتے ہوئے ان دونوں نے چاروں کی ترتیب میں اختلاف کیا ہے۔
امام صاحب یہی روایت اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں،لیکن چاروں ناموں کی ترتیب میں اختلاف پایاجاتا ہے۔
ابراہیم نے مسروق سے روایت کی، کہا: لوگوں نےحضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: وہ ایسے ہیں جن سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایک بات) سننے کے بعد سے مسلسل محبت کرتا آیا ہوں، آپ نے فرمایا تھا؛"چارآدمیوں سے قرآن پڑھنا سیکھو: ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے۔"
حضرت مسروق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،لوگوں نےحضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: وہ ایسے ہیں جن سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایک بات) سننے کے بعد سے مسلسل محبت کرتا آیا ہوں،آپ نے فرمایا تھا؛"چارآدمیوں سے قرآن پڑھنا سیکھو:ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابوحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔"
ہمیں عبیداللہ بن معاذ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند کےساتھ حدیث سنائی اور کچھ مزید بیان کیا، شعبہ نے کہا: آپ نے ان دونوں کے نام سے ابتداء کی، مجھے یاد نہیں کی ان دونوں میں سے کس کا نام پہلے لیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں،جس میں یہ اضافہ ہے،شعبہ نے کہا،استاد نے ان دو ناموں سے آغاز کیا اور مجھے معلوم نہیں کس کا نام پہلے لیا۔