امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا جس میں (ٹھنڈا کرنے کے لئے) پانی ملایا گیاتھا۔آپ کی دائیں طرف ایک اعرابی بیٹھا ہوا تھا اور بائیں طرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، پھر اعرابی کو دیا اور فرمایا: "دایاں، اس کے بعد پھر دایاں (مقدم ہوگا) "
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی کی آمیزش تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک اعرابی تھا، اور بائیں طرف ابوبکر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا پھر اعرابی کو دیا اور فرمایا: ”دایاں، پھر دایاں یعنی دائیں کو پہلے دیا جائے گا۔“
سفیان بن عینیہ نے زہری سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو میں دس برس کا تھا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں بیس سال کا تھا۔میری مائیں (والدہ، خالائیں، پھوپھیاں) مسلسل مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے کا شوق دلایاکرتی تھیں۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پالتو بکری کا دودھ دوہا اور اس میں گھر کے کنوئے کا پانی ملایاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔اور اس وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب تھے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ابو بکر کو عنایت فرمادیجئے، لیکن آپ نے وہ (دودھ کا برتن) اپنی دائیں جانب (بیٹھے ہوئے) بدو کو تھمادیا اور فرمایا؛"دایاں، پھر (اس کےبعد والا) دایاں۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے جبکہ میں دس سال کا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، جبکہ میں بیس سال کا تھا اور میری مائیں مجھے آپ کی خدمت پر ابھارتی تھیں۔ آپ ہمارے ہاں ہمارے گھر میں داخل ہوئے تو ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھریلو بکری دوہی اور اس میں گھر کے کنویں سے پانی ملایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے کہا: ـــــــ جبکہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف تھے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر کو دیجئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اعرابی کو دیا جو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دائیں کو پہلے پس دائیں کو پہلے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے اور پانی مانگا۔ ہم نے بکری کا دودھ دوہا پھر اس میں پانی ملایا اپنے کنوئیں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف بیٹھے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ سامنے اور داہنی طرف ایک اعرابی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو دیا اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو نہیں دیا اور فرمایا: ”داہنی طرف والے مقدم ہیں پھر داہنی طرف والے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو سنت ہے، سنت ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ/حدیث: 5291]
امام مالک بن انس نے ابو حازم سے، انھوں نے حضرت سہل بن ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پینے کی کوئی چیز آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑے لوگ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے سے فرمایا کہ تو مجھ کو بڑے لوگوں کو پہلے دینے کی اجازت دیتا ہے؟ وہ بولا کہ نہیں اللہ کی قسم میں اپنا حصہ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشروب پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پی لیا، آپ کے دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے افراد تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نوعمر لڑکے سے پوچھا: ”کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں ان کو دے دوں؟“ لڑکے نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے اپنے حصہ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
عبدالعزیز بن ابی حازم اور یعقوب بن عبدالرحمان القاری، دونوں نے ابو حازم سے، انھوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، ان دونوں نے یہ نہیں کہا: آپ نے وہ (پیالہ اس کے ہاتھ پر) رکھ دیا، البتہ یعقوب کی روایت میں اس طرح ہے۔کہ آپ نے وہ (پیالہ) اسے عطا فرمادیا۔
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، انہوں نے فتله