الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
10. باب الْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ:
10. باب: جس خلیفہ سے پہلے بیعت ہو اسی کو قائم رکھنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4773
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ تَكْثُرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا، قَالَ: فُوابِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ "،
شعبہ نے ہمیں فرات قزاز سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوحازم سے روایت کی کہ میں پانچ سال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہم مجلس رہا، میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: "بنو اسرائیل کے انبیاء ان کا اجتماعی نظام چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشیں ہوتا اور (اب) بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، اب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔" صحابہ نے عرض کی: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: پہلے اور اس کے بعد پھر پہلے کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو اور (تمہارے حقوق کی) جو ذمہ داری انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا
ابو حازم بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پانچ سال رہا، میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کے معاملات کی نگہداشت انبیاء کرتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ بنتا اور صورت حال یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور خلفاء ہوں گے اور بکثرت ہوں گے صحابہ کرام نے پوچھا، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور ان کو ان کا حق دو (ان کی معروف میں اطاعت کرو) اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جن لوگوں کا نگران بنایا ہے، ان کے متعلق وہ خود ان سے پوچھے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1842
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4774
حسن بن فرات نے اپنے والد سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1842
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4775
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح، وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِي أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَّا ذَلِكَ؟، قَالَ: تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ ".
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اب میرے بعد (کچھ لوگوں سے) ترجیحی سلوک ہو گا اور ایسے کام ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔" صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے جو شخص ان حالات کا سامنا کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم پر (حکام کا) جو حق ہے تم اس کو ادا کرنا اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی پانچ سندوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ میرے بعد امراء اپنے آپ کو ترجیح دیں گے اور منکر و ناپسندیدہ باتوں کا ظہور ہو گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! ہم میں سے جو ان حالات سے دوچار ہو، آپ اس کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور اپنے حقوق کی درخواست اللہ سے کرنا، یعنی اللہ سے دعا کرنا، کہ وہ حکمرانوں کو تمہارے حقوق ادا کرنے کی توفیق اور ہمت دے یا ان کو تبدیل کر دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1843
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4776
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، وَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللَّهُ يَقُولُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29، قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ "،
جریر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے زید ین وہب یے، انھوں نے عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ ورایت بیان کی، کہا: میں مسجد حرام میں دخل ہوا تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں نے ان پر جمگھٹا لگا رکھا تھا میں بھی لوگوں میں آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا، تو انہوں (عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا، تو ہم میں سے کچھ اپنا خیمہ درست کرنے لگے، اور ہم سے کچھ تیر اندازی میں مشغول ہو گئے اور بعض اپنے چرنے والے مویشیوں کے ساتھ ٹھہر گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی، نماز تیار ہے، آ جاؤ، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے، مجھ سے پہلے ہر نبی پر لازم تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس خیر کی طرف کرے، جو ان کے حق میں جانتا ہو یعنی اپنے علم کے مطابق ہر خیر سے انہیں آگاہ کرے اور ان کو ہر اس شر سے ڈرائے، جو ان کے بارے میں جانتا ہو اور تمہاری اس امت کے پہلے لوگوں میں سلامتی ہے اور اس کے بعد والے لوگوں کو مصائب میں مبتلا ہونا پڑے گا اور ایسی باتیں ہوں گی جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسی آزمائشیں آئیں گی جو ایک دوسرے کو ہلکا بنا دیں گی، ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا، یہ تو ہلاک کر کے ہی چھوڑے گا، تو جو اس شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو اسے اس کی موت اسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو سلوک ان سے اپنے بارے میں چاہتا ہے اور جس نے کسی امام کی بیعت کر لی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور اپنے دل سے اس سے محبت کی تو جہاں تک اس سے ہو سکے، وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ دوسرا شخص اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہو تو دوسرے کی گردن اڑا دو۔ تو میں ان کے قریب ہوا اور ان سے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو یاد رکھا، تو میں نے ان سے کہا، یہ تیرا چچا زاد معاویہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ تمہاری رضا مندی سے باہمی تجارت (لین دین) ہو اور اپنے آپ کو (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے۔ (نساء، آیت نمبر 29) تو وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے کہ اللہ کی اطاعت کی صورت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں ان کی نافرمانی کرو۔
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ بیان کرتے ہیں، میں مسجد میں پہنچا تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع تھے، میں بھی لوگوں میں آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا، تو انہوں (عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا، تو ہم میں سے کچھ اپنا خیمہ درست کرنے لگے، اور ہم سے کچھ تیر اندازی میں مشغول ہو گئے اور بعض اپنے چرنے والے مویشیوں کے ساتھ ٹھہر گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی، نماز تیار ہے، آ جاؤ، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے، مجھ سے پہلے ہر نبی پر لازم تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس خیر کی طرف کرے، جو ان کے حق میں جانتا ہو یعنی اپنے علم کے مطابق ہر خیر سے انہیں آگاہ کرے اور ان کو ہر اس شر سے ڈرائے، جو ان کے بارے میں جانتا ہو اور تمہاری اس امت کے پہلے لوگوں میں سلامتی ہے اور اس کے بعد والے لوگوں کو مصائب میں مبتلا ہونا پڑے گا اور ایسی باتیں ہوں گی جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسی آزمائشیں آئیں گی جو ایک دوسرے کو ہلکا بنا دیں گی، ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا، یہ تو ہلاک کر کے ہی چھوڑے گا، تو جو اس شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو اسے اس کی موت اسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو سلوک ان سے اپنے بارے میں چاہتا ہے اور جس نے کسی امام کی بیعت کر لی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور اپنے دل سے اس سے محبت کی تو جہاں تک اس سے ہو سکے، وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ دوسرا شخص اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہو تو دوسرے کی گردن اڑا دو۔ تو میں ان کے قریب ہوا اور ان سے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو یاد رکھا، تو میں نے ان سے کہا، یہ تیرا چچا زاد معاویہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ تمہاری رضا مندی سے باہمی تجارت (لین دین) ہو اور اپنے آپ کو (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1844
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4777
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ،
وکیع اور ابومعاویہ دونوں نے اعمش سے اسی سند سے اسی کے مانند روایت کی
امام صاحب یہی روایت اپنے چار اساتذہ سے اعمش کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1844
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4778
عامر نے عبدالرحمان بن عبد رب الکعبہ صائدی سے روایت کی، کہا: میں نے کعبہ کے پاس ایک مجمع دیکھا، پھر اعمش کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک جماعت کعبہ کے پاس بیٹھی دیکھی، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1844
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة