حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے بنوفزارہ سے جنگ لڑی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سربراہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر بنایا تھا، جب ہمارے اور چشمے کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور رات کے آخری حصے میں ہم اتر پڑے، پھر انہوں نے دھاوا بول دیا اور پانی پر پہنچ گئے، میں نے ان لوگوں کی ایک قطار سی دیکھی، اس میں عورتیں اور بچے تھے، مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، چنانچہ میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے (انہیں یقین ہو گیا کہ وہ تیر کا نشانہ بنیں گے)، میں انہیں ہانکتا ہوا لے آیا، ان میں بنوفزارہ کی ایک عورت تھی، اس (کے جسم) پر رنگے ہوئے چمڑے کی چادر تھی۔۔ قَشع، چمڑے کی بنی ہوئی چادر ہوتی ہے۔۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی۔ میں نے انہیں آگے لگایا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، انہوں نے اس کی بیٹی مجھے انعام میں دے دی۔ ہم مدینہ آئے اور میں نے (ابھی تک) اس کا کپڑا نہیں کھولا تھا کہ بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی، آپ نے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے اور (ابھی تک) میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا، پھر اگلے دن بازار (ہی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، اللہ تمہارے باپ کو برکت دے!" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ آپ کے لیے ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ بھیج دیا اور اس کے بدلے مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو چھڑا لیا جو مکہ میں قید کیے گئے تھے
حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بنو فزارہ سے جنگ کرنے کے لیے نکلے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے امیر تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر مقرر کیا تھا، جب ہمارے اور پانی کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، پھر انہوں نے سخت حملہ کیا اور پانی پر پہنچ گئے، اس پر قابل قتل لوگوں کو قتل کیا اور (دوسروں کو) قیدی بنایا اور میں ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا، جس میں ان کے بیوی بچے تھے تو مجھے خطرہ پیدا ہوا، وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، اس لیے میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے اور میں ان کو ہانک لایا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت تھی، جو پرانی پوستین (چمڑے کی قمیص) اوڑھے ہوئے تھی، اس کے ساتھ اس کی انتہائی خوبصورت بیٹی تھی، میں نے ان کو ہانکا حتی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے آیا تو ابوبکر نے انعام کے طور پر اس کی بیٹی مجھے دے دی تو ہم مدینہ پہنچ گئے، لیکن میں نے اس کا ابھی تک کپڑا نہیں اٹھایا تھا تو بازار میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! یہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔“ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! مجھے یہ بہت پسند ہے اور میں نے اس سے تعلقات بھی قائم نہیں کیے، پھر اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مجھے بازار میں مل گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے سلمہ! عورت مجھے ہبہ کر دو، تم کتنے اچھے ہو۔“ تو میں نے عرض کیا، یہ آپ کی ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں اٹھایا تو آپ نے اسے مکہ والوں کے ہاں، کچھ مسلمان لوگوں کے فدیہ کے طور پر بھیج دیا، جو مکہ میں قیدی بنا لیے گئے تھے۔