اوزاعی نے ہمیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حنظلہ بن قیس انصاری نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے اور چاندی (دینار اور درہم) کے عوض زمین کو بٹائی پر دینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ (امر واقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ نہروں کی زمین، چھوٹے نالوں کے کناروں کی زمین اور (متعین مقدار میں) فصل کی کچھ اشیاء کے عوض زمین اجرت پر دیتے تھے۔ کبھی یہ (حصہ) تباہ ہو جاتا اور وہ محفوظ رہتا اور کبھی یہ محفوظ رہتا اور وہ تباہ ہو جاتا، لوگوں میں بٹائی (کرائے پر دینے) کی صرف یہی صورت تھی، اسی لیے اس سے منع کیا گیا، البتہ معلوم اور محفوظ چیز جس کی ادایگی کی ضمانت دی جا سکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں
حضرت عبداللہ بن سائب بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالی عنہ سے مزارعت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا، مجھے ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع کیا ہے، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے، اس سے منع کیا ہے، اور اس میں ابن معقل ہے، عبداللہ کا نام نہیں ہے۔
سفیان بن عیینہ نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حنظلہ زُرَقی سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: انصار میں سب سے زیادہ ہمارے کھیت تھے۔ کہا: ہم زمین کو اس شرط پر کرائے پر دیتے کہ یہ (حصہ) ہمارے لیے ہے اور وہ (حصہ) ان کے لیے ہے، بسا اوقات اس حصے میں پیداوار ہوتی اور اس میں نہ ہوتی، تو آپ نے ہمیں اس سے منع کر دیا۔ البتہ آپ نے ہمیں چاندی کے عوض دینے سے منع نہیں کیا
حضرت عبداللہ بن سائب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے اور ان سے مزارعت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا، ثابت کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے روکا ہے، اور ٹھیکے کا حکم دیا ہے اور فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“