عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے تیرہ سال کے لڑکے کی وصیت کو جائز قرار دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3314]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3325] » اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10898] ، [عبدالرزاق 16416، 16419]
ابواسحاق نے کہا: ایک قبیلے کے سات سالہ لڑکے نے وصیت کی تو قاضی شریح نے کہا: اگر وصیت صحیح ہے تو جائز ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ رائے مجھے پسند ہے لیکن قاضی حضرات اس کو جائز نہیں گردانتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3315]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3326] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10904] ، [عبدالرزاق 16414] ، [ابن منصور 434] ، [اخبار القضاة 264/2]
ابواسحاق بن اسماعیل نے بیان کیا کہ وہ قاضی شریح کے پاس تھے، انہوں نے عباس بن اسماعیل بن مرثد کی اہلِ حیرہ کی دایہ کے لئے وصیت کو جائز قرار دیا، اس وقت عباس بچے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3316]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3327] » اس اثر کی سند صحیح ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
ابواسحاق نے کہا: قاضی شریح نے کہا: جب بچہ کنویں (میں گرنے) سے بچنے لگ جائے تو اس کی وصیت جائز ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3317]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3328] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: «سابق ولا حق» اور [ابن أبى شيبه 10906]
وضاحت: (تشریح احادیث 3313 سے 3317) یعنی جب اس بچے کے اندر اچھے برے اور نفع و نقصان کا شعور پیدا ہو جائے تو اس کی وصیت قابلِ عمل ہے۔
ابواسحاق سے مروی ہے کہ ان کے قبیلے کے ایک لڑکے نے جس کا نام مرثد تھا اور اس کے (دودھ کے) دانت گر گئے تھے، اس نے اہلِ حیرہ میں سے اپنی دایہ کے لئے چالیس درہم کی وصیت کی، قاضی شریح نے اس کو جائز قرار دیا اور فرمایا: جو کوئی حق بات کہے ہم نے اس کو جائز قرار دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3318]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3329] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10905] ، [اخبار القضاة 370/2] ، [عبدالرزاق 16412، 16413]
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ مدینہ میں ایک لڑکے کی موت کا وقت قریب آیا، اس کے وارثین شام میں تھے، لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ وہ قریب الموت ہے، کیا وصیت کر سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ وہ وصیت کر سکتا ہے، چنانچہ اس نے ایک کنواں جس کو بئر جشم کہا جاتا تھا اس کی وصیت کی جس کو اس کے مالکان نے تیس ہزار میں بیچا تھا۔ ابوبکر نے ذکر کیا: اس لڑکے کی عمر دس یا بارہ سال تھی۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3319]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو بكر بن محمد لم يدرك عمر فيما نعلم والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 3330] » اس اثر کے رواۃ ثقات ہیں، لیکن ابوبکر بن محمد کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10896] ، [عبدالرزاق 16411] ، [الموطأ: فى الوصية، باب جواز وصية الصغير] ، [البيهقي 282/6] ، [ابن حزم 330/9]
حدیث نمبر: 3320
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "يَجُوزُ وَصِيَّةُ الصَّبِيِّ في ماله في الثلث، فما دونه، وإنما يمنعه وليه ذلك في الصحة رهبة الفاقة عليه، فأما عند الموت، فليس له أن يمنعه".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: بچے کی اپنے مال میں تہائی یا اس سے کم کی وصیت جائز ہے، اور بحالتِ صحت اس کا ولی اس بچے کو فقر و فاقہ کے ڈر سے وصیت سے روک سکتا ہے، لیکن موت کے وقت اس کو وصیت سے روکنے کا اختیارنہیں ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3320]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3331] » اس اثر کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10910] و [عبدالرزاق 16424] و [ابن منصور 436]
ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے عبداللہ بن عتبہ کے پاس ایک بچی لائی گئی جس نے وصیت کی تھی، لوگوں نے اس کو چھوٹی سمجھا، لیکن انہوں نے کہا: جس شخص نے صحیح بات کی ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3321]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى عبد الله بن عتبة، [مكتبه الشامله نمبر: 3332] » اس اثر کی سند عبداللہ بن عتبہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10899] ، [عبدالرزاق 16415] ، [ابن منصور 432، 433]
ابوبکر سے مروی ہے کہ سلیم غسانی کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر دس یا بارہ سال تھی، انہوں نے اپنے کنویں کی وصیت کی جس کی قیمت تیس ہزار تھی، سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو جائز قرار دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سلیم غسانی کو لوگ عمرو بن سلیم کہتے ہیں (یعنی صحیح عمرو بن سلیم ہے نہ کہ سلیم غسانی)۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3322]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «هكذا سمعه أبو محمد فرواه كما سمعه ولكنه ذكر الرواية الصحيحة في آخر الأثر. إسناده منقطع عمر بن سليم لم يدرك ابن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 3333] » اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ عمرو بن سلیم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں نہ تھے۔ دیکھے: [عبدالرزاق 16409]
عبداللہ اور محمد نے اپنے والد ابوبکر (بن محمد بن عمرو بن حزم) سے اسی طرح روایت کیا (جیسا اوپر گزرا) سوائے اس کے کہ ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اس لڑکے کی عمر تیرہ سال تھی، اور دوسرے نے کہا: بالغ ہونے سے پہلے (وصیت کی)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «عن ابنيه» اس سے مراد ابوبکر کے دونوں بیٹے (عبداللہ اور محمد) ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3323]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3334] » اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، ابوبکر کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3317 سے 3323) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ بچے کی وصیت اگر معقول اور صحیح ہے تو نافذ العمل ہوگی۔ واللہ اعلم۔