سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے حق میں دعائے خیر کرو وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کریں، اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جن کو تم نا پسند کرو اور وہ تمہیں نا پسند کریں، تم ان پر لعنت کرو، وہ تم پرلعنت کریں۔“ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان کی بیعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں، لیکن جب کوئی کسی حاکم کو گناہ کا کام کرتے دیکھے تو اس کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔“ اس حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن جابر نے کہا: میں نے زریق بن حیان سے کہا: اے ابوالمقدام! تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی؟ زُرَیق یہ سن کر اپنے گھٹنوں کے بل جھکے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے کہا: بے شک قسم الله کی میں نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی، وہ کہتے تھے میرے چچا سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے تھے میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2832]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2839] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1855، مثله] و [ابن حبان 4589] ، [طبراني 62/18، 115، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2831) اس حدیث میں دونوں قسم کے حکمرانوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے، ایک وہ حکمراں جو عوام کے خیر خواہ اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنے والے ہیں، یہ بہترین حکمراں ہیں، عوام ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور یہ عوام کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اور دوسرے بدترین وہ حکمراں ہیں جن کو صرف اپنے اقتدار اور مفادات سے غرض ہوتی ہے، عوام کو عدل و انصاف مہیا کرنے اور ان کی مشکلات حل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، سب لوگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور وہ عوام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس میں دراصل حکمرانوں کو عدل و انصاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ عند اللہ و عند الناس محبوب بننے کا یہی طریقہ ہے۔ اور ظالم حکمراں بھی جب تک کفرِ صریح کا ارتکاب نہ کریں، اور شعائرِ اسلام خصوصاً نماز کی پابندی کریں ان کے خلاف خروج بغاوت کی اجازت نہیں، جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے اور صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا، اور امیر و حاکم، عام مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ ر ہے، نہ بغاوت کی نہ حکم سے سرتابی کی۔ ایک مرتبہ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس کچھ نوجوان آئے اور حکمرانوں پر بڑی نکتہ چینی کرتے رہے، بلکہ بعض نے سخت لہجہ و اسلوب اختیار کیا اور بغاوت پر اتر آنے کی بات کہی، تو شیخ محترم (رحمہ اللہ) نے بکمالِ شفقت و حکمت ان سے کہا: ان میں بہت خرابیاں سہی لیکن کیا تم صریح کفر کا مرتکب کسی کو پاتے ہو؟ سب خاموش ہو گئے اور یہ فتنہ اس وقت دب گیا۔ اللہ تعالیٰ آج کے نوجوانوں کو بصیرت اور سمجھ عطا کرے، آمین۔