سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کن لوگوں کا امتحان سخت ہوتا ہے؟ (ان پر آفت و مصیبت زیادہ آتی ہے)، فرمایا: ”پیغمبروں پر، پھر ان پر جو مرتبے میں ان کے بعد افضل ہیں، پھر جو ان کے بعد افضل ہیں، اور آدمی پر اس کے دین کے موافق بلا آتی ہے، اگر وہ اپنے دین میں قوی اور سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی شدید و سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کے دل میں نرمی اور کمی ہوتی ہے تو مصیبت میں اس پر کمی رہتی ہے، اور بندے پر اسی انداز میں (دکھ، بیماری، افلاس، رنج کی) مصیبت پڑتی رہتی ہے جہاں تک کہ وہ زمین پر چلتا ہے اور کوئی گناہ اس پرنہیں رہتا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2818]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2825] » اس حدیث کی سند حسن اور دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2398] ، [ابن ماجه 4023] ، [أبويعلی 830] ، [طيالسي 44/2، 2091] ، [مشكل الآثار 61/2] ، [شعب الإيمان 9775]
وضاحت: (تشریح حدیث 2817) یعنی آفات و مصیبتوں پر صبر و شکر کے نتیجہ میں اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور وہ آلام و مصائب اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں، معلوم ہوا کہ اچھے، نیک و صالح اللہ کے بندے اکثر مصیبت، سختی و تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو اللہ کا غضب یا ناراضگی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ یہ آلام و مصائب تو گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہیں، لہٰذا مؤمن کو مطمئن و مسرور، راضی برضائے الٰہی رہ کر صبر و شکر سے کام لینا چاہے۔ ایک اور حدیث ہے: الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے مصائب و امراض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ [بخاري 5645] ۔ یہ مؤمن کے لئے بڑی بشارت و خوش خبری ہے کہ دنیا میں مصیبت و پریشانی ڈال کر اللہ تعالیٰ اس کو بالکل پاک و صاف کر دیتا ہے اور اس حالت میں وہ اللہ سے جا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت و پریشانی میں ہمیں صبر و شکر کی توفیق بخشے، آمین۔