الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
63. باب النَّهْيِ عَنِ الْقَصَصِ:
63. قصہ گوئی کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2814
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ، أَوْ مَأْمُورٌ، أَوْ مُرَاءٍ". قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ: إِنَّا كُنَّا نَسْمَعُ مُتَكَلِّفٌ. فَقَالَ: هَذَا مَا سَمِعْتُ.
عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا (سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وعظ و نصیحت میں) قصے بیان نہیں کرتا ہے مگر حاکم یا جو حاکم کی طرف سے وعظ کہنے پر مقرر ہو یا ریا کار ہو (تاکہ قصہ گوئی سے متاثر ہوکر لوگ اس کی تعریف کریں)۔ عبداللہ بن عامر نے کہا: میں نے عمرو بن شعیب سے سنا: تکلف کرنے والے کا نام سنا کرتے تھے، تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سنا ہے۔ (یہ ان کی ایمان داری ہے کہ جیسا سنا ویسے ہی روایت کر دیا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2814]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن عامر الأسلمي، [مكتبه الشامله نمبر: 2821] »
اس حدیث کی سند عبداللہ بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن متابعت موجود ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3753] ، [أحمد 83/2، 178] ، [مجمع الزوائد 921]

وضاحت: (تشریح حدیث 2813)
اس حدیث کی تشریح میں علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسلامی حکومتوں میں یہ دستور ہوتا ہے کہ حاکم اور امیر خود لوگوں کو خطبہ سناتا ہے، وعظ و نصیحت کرتا ہے، یا جن لوگوں کو اس کے لائق سمجھتا ہے ان کو اپنی طرف سے نائب مقرر کرتا ہے وہ خطبہ پڑھتے ہیں، کیونکہ ہر کسی کو خطبہ یا وعظ کا اختیار دیا جائے تو ممکن ہے ایک جاہل عام لوگوں کو بھڑکا دے اور ان کے عقیدے کو خراب کر دے، جیسے ہمارے زمانے میں جاہل واعظ کیا کرتے ہیں کہ سوا قصے اور حکایات بیان کرنے کے نہ ان کو امر بالمعروف سے غرض ہوتی ہے نہ نہی عن المنکر سے، اور صحیح احادیث کے بجائے موضوع اور ضعیف احادیث لوگوں کو سناتے اور گمراہ کرتے ہیں۔
بعض نے کہا وعظ سے مراد یہاں جمعہ اور عید کا خطبہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ خطیب حاکم یا اس کے نائب کے سوا کوئی نہ ہو، اس سے مراد وہ وعظ نہیں جو دیندار عالم اللہ کے لئے بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں، نہ ان کو قاص (قصہ خواں) کہہ سکتے ہیں، بلکہ ایسے عالم تو انبیاء کے نائب اور پیرو ہیں (انتہیٰ)۔
بہرحال قصہ خوانی اور بے سر و پا حکایات بیانی اس حدیث کی رو سے ممنوع ہوئیں، درس و تدریس اور وعظ و نصیحت میں قرآن پاک اور احادیثِ نبویہ کا بے پایاں ذخیرہ موجود ہے جن میں مثالیں، صحیح واقعات موجود ہیں، خطبہ و وعظ میں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔
(مترجم)۔